تھر کی جوگن: جس نے اپنے ہاتھوں سے کوبرا کی گردن پکڑی
تھر کی جوگن: جس نے اپنے ہاتھوں سے کوبرا کی گردن پکڑی
میراں کی اپنی بنائی ہوئی جھونپڑی میں سے وہ ایک چھوٹی سی ٹوکری لے کر آئی اور ہلکے نیلے رنگ کے کپڑے کے ٹکڑے سے ڈھکے ٹوکری کے ڈھکن کو کھول دیا۔ جلد ہی وہ اپنی انگلیوں سے ٹوکری کے اندر سو رہے لپٹے ہوئے کوبرا کو ہلانے لگی۔ چار فٹ لمبا سانپ جاگ گیا اور اٹھائے جانے پر غصے کا اظہار کرنے لگا، شاید اس لیے سانپ نے ہچکولے کھانے شروع کر دیے اور پھن پھیلا دیے۔ اس کی آنکھیں میراں کی محتاط نظروں پر ٹکی تھیں۔
میں سندھ میں ضلع تھرپارکر کے مرکزی شہر مٹھی سے 50 کلومیٹر دور سوبھارو نامی ایک چھوٹے سے گاؤں میں تھا۔ سوبھارو شاہ اس وسیع صحرا میں واقع ایک چھوٹی بستی ہے جہاں میراں اور اس کا خانہ بدوش جوگی قبیلہ رہتا ہے۔
جوگی فصل کی موسم میں کھیتوں میں کام کر کے زندگی کا گزارا کرتے ہیں، اس دوران ان کی اچھی خاصی کمائی ہو جاتی ہے۔ سال کے باقی دنوں میں یہ تھرپار کر کے صحرا میں پیدل چل کر سانپ کا کھیل دکھا کر اور ہاتھوں سے بنی چیزیں بیچ کر اپنا گزارا کرتے ہیں۔ انہیں ان کے کاندھوں پر لٹکے رضائی سے بنے تھیلے سے باآسانی پہنچانا جا سکتا ہے، جس میں یہ لوگ سانپ اور بین لیے کر گھومتے ہیں۔
تھرپارکر سے تعلق رکھنے والا میں، بطور ایک ماہر بشریات جوگیوں کی زندگی پر کافی کام کر چکا ہے، سو میں نے ایک خاتون جوگی کے بارے میں سن رکھا تھا، پہلی خاتون جوگی یا جوگن، ایک ایسی نڈر خاتون جو چند زبردست کوبرا سانپوں کو پکڑ چکی تھی۔ اس کی تلاش مٹھی سے شروع ہوئی۔
میں جب اپنے فوٹو گرافر کے ساتھ تھرپار کر کے نا ختم ہونے والے ریتیلے ٹیلوں پر ڈرائیو کر رہا تھا تب سڑک کنارے ایک مقامی باشندے سے ملا جس نے بتایا کہ، "جوگن ٹیوب ویل کے برابر واقع گاؤں میں رہتی ہے۔" وہ سردیوں کے دن تھے اور دن کے دوران درجہ حرارت مناسب 25 ڈگری تھا۔ راتیں بہت ہی ٹھنڈی تھیں۔
ملاقات
گارے اور سرکنڈوں سے بنی چھوٹی جھونپڑیوں کے درمیان ہم نے 50 سالہ میراں کو اپنی دو بکریوں اور گائے کی نگرانی کرتے ہوئے دیکھا۔ وہ کافی دوستانہ طبعیت کی مالک ہیں۔ ہم جیسے ہی ان کے قریب پہنچے تو ان کے چہرے پر مسکراہٹ جگمگا اٹھی۔
اس نے ہاتھوں سے بنی رلی بچھا دی جو کہ ہم سب کے بیٹھنے کے لحاظ سے کافی چھوٹی تھی لہٰذا ہمیں ریت پر ہی بیٹھنا پڑا۔ سردیوں کی ٹھنڈ میں ریت کے ذرات میری ہیتھیلیوں پر شدید ٹھنڈک کا احساس پیدا کر رہے تھے۔ میران بڑی ہی پر سکون دکھائی دی۔
وہاں کے مقامی افراد جھلملاتے رنگین دھاگوں کے ٹانکوں سے سجی ہوئی کالی شال لپیٹے ہمارے پاس سے گزرے۔ میراں ان میں سے مختلف نظر آئی — اسے اجرک پرنٹ کا گھاگرا اور قمیض جسے پولکا کہا جاتا ہے، کا عام سادہ پیرہن پہنا ہوا تھا۔ اس کے گلے میں موتیوں کا ہار لپٹا ہوا تھا اور انہوں نے اپنی انگلی میں ایک بے چمک سونے کی انگھوٹی پہن رکھی تھی۔ انہوں نے سگریٹ سلگائی اور اپنی بیٹی کو چائے لانے کا کہا۔ مسکراتے ہوئے انہوں نے اپنی کہانی بتانا شروع کی۔