جھرک: قدیم بندرگاہ سے ویران بستی تک
جھرک: قدیم بندرگاہ سے ویران بستی تک
ذرا تصور کریں، آپ آج سے ڈیڑھ سو برس پہلے ایک پہاڑی پر کھڑے ہیں، جون جولائی کے دن ہیں اور جنوب مغرب سے تیز ہوائیں چل رہی ہیں۔ آپ کے سامنے حد نگاہ تک مٹیالے پانی کی ایک چادر بچھی ہوئی ہے۔ پانی، ہوا کی وجہ سے بنتی ہوئی لہروں سے لڑتا، جھگڑتا اور چنگھاڑتا جنوب میں سمندر کی طرف بڑھ رہا ہے، پانی پر کئی چھوٹی بڑی بادبانی کشتیوں کی آوت جاوت جاری ہے۔
پھر ایک اسٹیمر شمال سے آتا ہوا دکھائی دیتا ہے، جو بڑی شان سے پانی کی سطح پر تیرتا اور دھواں اُڑاتا آ رہا ہے۔ کچھ اسٹیمر آپ کی آنکھ کے نیچے سمندر کنارے بنی ہوئے دفتر کے آگے کھڑے ہیں۔ جن پر لکڑیاں لادی جا رہی ہیں، جو ان اسٹیمروں کا ایندھن ہے۔
جیسے لکڑیاں لوڈ ہو جاتی ہیں، کچھ لوگ دفتر سے نکل کر جہاز پر سوار ہو جاتے ہیں اور پانی کا اسٹیمر دھواں اُڑاتا شمال کی طرف چل پڑتا ہے، کیونکہ یہ اسٹیمر کراچی سے آیا تھا اور اب کوٹری، حیدرآباد کا رخ کر رہا ہے۔ یہاں رُکنا اس لیے ضروری تھا کہ، یہ جھرک کا خوبصورت دریائی کنارہ ان اسٹیمروں کی مرکزی بندرگاہ ہے، لکڑی دینا اور آنے جانے کا سارا رکارڈ یہاں پر ہی رکھا جاتا ہے۔