نقطہ نظر

جھرک: قدیم بندرگاہ سے ویران بستی تک

چارلس نیپئر نے جھرک کو خوبصورت اور پُرفضا محل وقوع کی وجہ سے یہاں برطانوی فوج کے لیے ایک ہیڈ کوارٹر کا درجہ دیا۔

جھرک: قدیم بندرگاہ سے ویران بستی تک

ابوبکر شیخ

ذرا تصور کریں، آپ آج سے ڈیڑھ سو برس پہلے ایک پہاڑی پر کھڑے ہیں، جون جولائی کے دن ہیں اور جنوب مغرب سے تیز ہوائیں چل رہی ہیں۔ آپ کے سامنے حد نگاہ تک مٹیالے پانی کی ایک چادر بچھی ہوئی ہے۔ پانی، ہوا کی وجہ سے بنتی ہوئی لہروں سے لڑتا، جھگڑتا اور چنگھاڑتا جنوب میں سمندر کی طرف بڑھ رہا ہے، پانی پر کئی چھوٹی بڑی بادبانی کشتیوں کی آوت جاوت جاری ہے۔

پھر ایک اسٹیمر شمال سے آتا ہوا دکھائی دیتا ہے، جو بڑی شان سے پانی کی سطح پر تیرتا اور دھواں اُڑاتا آ رہا ہے۔ کچھ اسٹیمر آپ کی آنکھ کے نیچے سمندر کنارے بنی ہوئے دفتر کے آگے کھڑے ہیں۔ جن پر لکڑیاں لادی جا رہی ہیں، جو ان اسٹیمروں کا ایندھن ہے۔

جیسے لکڑیاں لوڈ ہو جاتی ہیں، کچھ لوگ دفتر سے نکل کر جہاز پر سوار ہو جاتے ہیں اور پانی کا اسٹیمر دھواں اُڑاتا شمال کی طرف چل پڑتا ہے، کیونکہ یہ اسٹیمر کراچی سے آیا تھا اور اب کوٹری، حیدرآباد کا رخ کر رہا ہے۔ یہاں رُکنا اس لیے ضروری تھا کہ، یہ جھرک کا خوبصورت دریائی کنارہ ان اسٹیمروں کی مرکزی بندرگاہ ہے، لکڑی دینا اور آنے جانے کا سارا رکارڈ یہاں پر ہی رکھا جاتا ہے۔

انڈس اسٹیم فلوٹیلا کا ایک اسٹیمر

جھرک کی ایک پہاڑی — تصویر ابوبکر شیخ

یہ تصور آپ کے اندر کتنا دلکش احساس پیدا کرتا ہے، مگر بدقسمتی ہماری کہ یہ دو برس نہیں بلکہ سیکڑوں برس پرانا منظر ہے جس کا ملنا مشکل ہی نہیں ناممکن بھی ہے۔

مگر کوئی تو نشانی ہوگی، کوئی پرانی دیوار، کوئی تحریر، کچھ تو بچ گیا ہوگا اس بے رحم وقت کے ہاتھوں سے! اس کُچھ مل جانے والے جستجو نے ہمیں اس طرح جکڑ کر رکھا ہوتا ہے کہ ہم خود کو آزاد نہیں کروا سکتے۔ یہ دیوانگی اس لیے بھی ضروری ہے کہ، ہم اپنے ماضی سے رشتہ توڑنا نہیں چاہتے۔ آج کل ویسے بھی اس ترقی نے ہمارے دل میں ویرانیاں پیدا کر دیں ہیں، اس لیے تعلقات اور رشتوں کی جو بھی ڈور ملے اُسے تھام لو کہ، اس کی آغوش میں ہی سکون ہے۔

میں نے کینجھر جھیل کے کنارے درختوں کی چھاؤں میں چائے کا آخری سپ لیا، اس قدیم جھیل کی خوبصورتی کو جی بھر کر دیکھا، آئندہ آنے کی اُمید کا بیج اپنی تمناؤں کی زمین میں بویا اور حیدرآباد جانے والے N-5 پر اپنے سفر کا آغاز کر دیا، کھیر تھر پہاڑی سلسلہ راستے کے دونوں اطراف پھیلا ہوا ہے اور کبھی اچانک سے مغرب کو جاتا دکھائی دیتا ہے اور مشرق میں اُس کی جگہ دریائے سندھ لے لیتا ہے۔

آپ اگر چاہیں تو رُک بھی سکتے ہیں اور دریا کے پشتے پر چڑھ کر اس عظیم بہاؤ کا راستہ دیکھ سکتے ہیں۔ آپ کی حد نظر ختم ہوجائے گی مگر دوسرا کنارا نظر نہیں آئے گا۔ اب یہاں پانی نہیں ہے، بس دودھ جیسے سفید ریت کے ٹیلے ہیں۔ پانی تب آتا ہے جب بارشوں کی موسم میں بارشیں زیادہ پڑجائے اور پانی کو ذخیرہ کرنے کی گنجائش ختم ہو جائے تو پھر دیکھیے کہ یہاں سے گزرتے پانی کی کیا شان و شوکت ہے۔

دریائے سندھ کے بہاؤ کا نظارہ — تصویر ابوبکر شیخ

جھرک شہر کی خستہ حالی جا بجا نظر آتی ہے— تصویر ابوبکر شیخ

جھرک شہر کی ایک گلی — تصویر ابوبکر شیخ

کینجھر سے 25 کلومیٹر آگے راستے پر آپ کو ’جھرک شہر‘ کا ایک بورڈ نصب نظر آئے گا، اور آپ مشرق کی طرف چل پڑتے ہیں۔ ساتھ میں ننہی ننہی پہاڑیاں بھی آپ کے ساتھ چلتی ہیں اور پھر جھرک کا خستہ حال ویران اور اُداس شہر آ جاتا ہے۔ جس کے متعلق 19 ویں صدی میں تاجِ برطانیہ کے ایک انگریز کیپٹن ’ای ڈیلھوسٹ‘ نے شہر کی رونقوں کو اپنے لفظوں میں سراہنے سے رہ نہ سکے۔

یہ باذوق انگریز فوجی افسر، 1832 سے 1839 تک یہاں قیام پذیر رہے، وہ لکھتے ہیں، 'یہ ایک خوبصورت شہر ہے۔ یہاں کی وسیع بازار میں دو سو سے زیادہ دکانیں ہیں، راستے کے دونوں اطراف دکانیں ہیں اور بازار کو ٹھنڈا رکھنے کے لیے ایک خوبصورت، کئنچی نما ایک چھت بنا دی گئی ہے۔ یہاں کی بازار میں سامان کراچی سے سستا ہے۔‘

تاریخ کے اوراق بتاتے ہیں کہ، ’دریائے سندھ کے کنارے یہ ایک قدیم بندرگاہ رہی ہے۔ ارغونوں اور مغلوں کے زمانے میں یہ شہر اسماعیلی بزرگوں کی سرگرمیوں کا مرکز رہا ۔ تالپوروں کے زمانے میں اسماعیلی خواجوں کے یہاں 983 کے قریب خاندان بسے تھے اور قرب و جوار میں بھی ان کی ایک اچھی تعداد آباد تھی۔

جھرک میں واقع دکانیں جن میں پرانے وقتوں کے آثار دیکھنے کو مل جاتے ہیں— تصویر ابوبکر شیخ

جھرک شہر کی ایک گلی — تصویر ابوبکر شیخ

ماضی کی شاندار طرز تعمیر کا اندازہ اس چھت سے لگایا جا سکتا ہے — تصویر ابوبکر شیخ

1838 میں آغا خان اول، آغا شاہ حسن علی یہاں آ کر آباد ہوئے۔ اُن دنوں سندھ پر میروں کا راج تھا، سندھ کے آخری حکمران میر نصیر خان، ایران کے حاکم محمد علی شاہ قاچار کے کہنے پر، آغا خان کو گرفتار کرنے کے لیے مقامی جوکھیوں کے سردار کو حکم دیا، جس پر جھرک کے قریب آغا خان کے مریدوں اور جوکھیوں میں جنگ لگی جس میں 72 کے قریب لوگ مارے گئے۔

یہ وہ دن تھے جب انگریزوں کی پکڑ میں وسعت آتی جا رہی تھی، اس کے متعلق ’اسٹوک‘ اپنی کتاب ‘Dry Leves from Young Egypt’ میں کیا خوب لکھا ہے کہ، ’جیمس آؤٹرام کے کچھ زیادہ نہ کرنے کی وجہ سے یہاں سر چارلس نپیئر کو میدان میں اُتارا گیا۔ چارلس نیپئر نے یہاں کے لوگوں کے ساتھ زیادتیوں کا ایک سلسلہ شروع کر دیا، جس سے لوگوں کے دل میں انگریزوں کے خلاف نفرت اور بھی بڑھنے لگی، اسی کیفیت سے مجبور ہو کر حیدرآباد کے میروں نے انگریزوں سے جنگ لڑنے کا فیصلہ کیا۔ نیپئر نے 17 فروری 1843 میں میانی اور 24 مارچ کو پُھلیلی کے کناروں پر ’دُبی‘ نام کی جنگ میں میروں کو شکست دے کر سندھ کو انگریز سلطنت سے ملادیا۔‘

چونکہ کابل کی جنگ کے وقت آغا حسن علی شاہ نے چارلس نیپئر کی مدد کی تھی اس لیے یہاں انگریزوں نے آغا خان کی مدد کی اور اسی طرح 1843 میں آغا حسن علی کو ’ہز ہائی نس‘ کا خطاب دیا گیا۔ اسی برس آغا خان اول نے جھرک میں جو محل بنوایا وہ آج تک موجود ہے، جس کی فن تعمیر دیکھنے سے تعلق رکھتی ہے۔

آغا خان اول کی جانب سے تعمیر کروایا جانے والا محل — تصویر ابوبکر شیخ

محل کے باہر آویزاں تختی— تصویر ابوبکر شیخ

محل کا اندرونی حصہ — تصویر ابوبکر شیخ

محل کا ایک کمرہ — تصویر ابوبکر شیخ

بظاہر تو 1843 میں انگریزوں نے لڑ جھگڑ کر سندھ حاصل کرلیا، مگر زمینی حقائق یہ ہیں کہ ایسٹ انڈیا کمپنی نے اپنے بیوپار کو بڑھاوا دینے کے لیے سندھ کی اقتصادیات پر ایک زمانے سے گہری نظر رکھی ہوئی تھی، جس کے لیے فرنگیوں نے طرح طرح کے روپ اختیار کیے۔

اگر ایسا نہ ہوتا تو تاریخ ہمیں یہ نہ بتاتی کہ 1699 میں کیپٹن ہملٹن، ننگر ٹھٹھہ پر قبضہ کرنے کی غرض سے لاہری بندر پہنچا تھا۔ بہرحال یہ بحث کسی اور وقت۔ فی الحال ذکر اُس جھرک کا جہاں کے کناروں پر تاریخ کے کئی یادگار کرداروں نے اپنے شب و روز گذارے۔

چارلس نیپئر نے جھرک کو خوبصورت اور پُرفضا محل وقوع کی وجہ سے یہاں برطانوی فوج کے لیے ایک ہیڈ کوارٹر کا درجہ دیا۔ اسی طرح جھرک جو مقامی طور پر ایک قدیم بندر تھا، انگریزوں کی یہاں چھاؤنی بننے سے اُس کی اہمیت و افادیت میں یقیناً اضافہ ہوا۔

یہاں کے بندرگاہ کی اہمیت اور افادیت کے متعلق ’انسائیکلوپیڈیا سندھیانا‘ میں لکھا ہے،’1859 میں برطانوی حکومت کی کمپنی ’انڈس اسٹیم فلوٹیلا‘ نے دریائے سندھ پر سامان اُٹھانے کے لیے آمدورفت شروع کی، مقامی طور پر بادبانی کشتیوں کی آمد ورفت کا سلسلہ یہاں صدیوں سے جاری تھا، مگر جدید جہاز رانی کی ابتدا انگریزوں کے زمانے میں ہوئی، انہوں نے 1835 میں ’انڈس‘ نام کا ایک بڑا جہاز چلایا تھا۔ 1852 میں بھی انہوں نے کراچی سے کوٹری تک ایک چھوٹا جہاز چلایا جو ڈاک لانے اور لے جانے کے لیے استعمال ہوتا تھا۔

انڈس اسٹیم فلوٹیلا نے اپنے اسٹیمروں کی سروس کے لیے جھرک میں ایک بندرگاہ تعمیر کی، اس وجہ سے جھرک نے بڑی تیزی سے ترقی کی، یہاں سے چلنے والے جہاز لکڑی کے ایندھن پر چلتے تھے اور یہ مُلتان، اٹک سے ہو کر کالا باغ تک جاتے تھے۔ اسی برس کراچی ہاربر سے گزری تک ریلوے کی پٹری بچھائی گئی جس کے بعد سامان کیاماڑی سے گزری تک ریل پر آتا اور پھر کشتیون کے ذریعے جھرک تک پہنچایا جاتا۔

محترم حسن علی آفندی (1830 – 1895) جس نے ’سندھ مدرستہ الاسلام‘ کی 1885 میں بنیاد رکھی، وہ انڈس فلوٹیلا کی اس جھرک میں مرکزی آفیس میں ملازم تھے۔ اسٹیمروں کو لکڑی بھی فراہم کرتی تھی، کتنے ٹن لکڑی بندر پر آئی اور کس اسٹیمر کو کتنے ٹن لکڑی دی گئی، اسٹیمروں کے آنے جانے کا رکارڈ، یہ سب مرکزی آفس میں بیٹھے حسن علی آفندی کی ذمہ داری تھی۔ اسی لیے جھرک کو یہ بھی اعزاز حاصل ہے کہ علم سے شدید محبت کرنے والے حسن علی آفندی کا بھی ان گلیوں سے گزر ہوا۔

محل میں لکڑی کا نفیس کام بھی دیکھنے کو ملتا ہے — تصویر ابوبکر شیخ

محل کا اندرونی حصہ— تصویر ابوبکر شیخ

1861 میں کراچی سے کوٹری تک ریلوے لائن بچھائی گئی اور سامان ریلوے پر جانے لگا تو ان پانی والے اسٹیمروں کی سروس پر منفی اثر پڑا۔ 1862 تک اس کمپنی کی اٹک تک سروس جاری رہی اور اسی برس انڈس نیوی کو ختم کر کے اس کے دونوں جہاز انڈس فلوٹیلا کمپنی کے حوالے کیے گئے، کچھ عرصہ سروس جاری رہی مگر دھیرے دھیرے اس کا عروج ختم ہونے لگا اور آخر 1883 میں اس کمپنی کو بند کر دیا گیا۔ مگر اس کے باوجود انڈس فلوٹیلا کا ایک اسٹیمر دریائے سندھ میں 1907 تک چلتا رہا۔

اس حوالہ سے میں نے جب ماہر آثار قدیمہ ڈاکٹر محمد علی مانجھی صاحب سے بات چیت کی تو اُنہوں نے کہا کہ، 'ہمارے ہاں سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ ہم باتوں کے بادشاہ ہیں، عملی کام بمشکل ہی کر پاتے ہیں، آج آپ جب مجھ سے یہ پوچھتے ہیں کہ، انڈس فلوٹیلا کا آفیس کہاں ہے۔ ڈپٹی کلیکٹر مسٹر میتھیو کی وہ آفیس کہاں ہے جہاں وہ بیٹھتا تھا، یا دوسرے تاریخی یادگار مقامات کہاں ہے جن کے ذکر سے تاریخ کے صفحات بھرے پڑے ہیں، یا پھر 2011 میں دریائے سندھ سے انڈس فلوٹیلا کے ایک اسٹیمر کا وہ ڈھانچہ کہاں ہے تو میں جو یہاں کا ہوں مگر میں افسوس کرنے کے سوا اور کیا جواب دے سکتا ہوں۔ ہمارے ادارے ہیں، یہ بہت ہے۔ کر کیا رہے ہیں اس کا کچھ پتہ نہیں۔

2011 میں دریائے سندھ سے ملنے والا انڈس فلوٹیلا کے ایک اسٹیمر کا ڈھانچہ — تصویر بشکریہ روزنامہ کاوش اخبار

آنے والے پچاس برسوں میں کوئی اور کتابیں پڑھ کر یہاں آئیں گے تو اُسے بچے کچھ گھروں کے آثاروں اور قدیم بازار کی کچھ بچی کچی دکانیں بھی دیکھنے کو نہیں ملیں گی۔‘ ڈاکٹر صاحب کے جواب میں بے بسی اور مایوسی جھلک رہی تھی۔ اس کیفیت میں، میں اگر کوئی دوسرا سوال کرتا بھی تو کیا؟

میں پہلے اُس قدیم گلی میں گیا جہاں آغا حسن علی شاہ کا محل ہے۔ یہ گلی جو ایک زمانے میں بڑی مصروف رہتی ہوگی مگر اب خاموشی اور اُداسی کی چادر تان کر اکثر سوتی رہتی ہے۔ وہ خاندان جو ان گلیوں، محلوں اور گھروں کی حیات تھے وہ کب کے چلے گئے، کسی نے جا کر نیا شہر بسایا، کوئی سرحد پار چلا گیا اور کوئی مٹی کی ٹھنڈی گود میں سو گیا۔

شہر جھرک کی ایک تصویر — تصویر ابوبکر شیخ

جھرک کی گلیاں اور محلے —تصویر ابوبکر شیخ

جھرک کی گلیاں اور محلے — تصویر ابوبکر شیخ

اب یہاں نہ کوئی آواز آتی ہے اور نہ کوئی ہنسی سننے کو ملتی ہے۔ ہم جب محل دیکھنے کو پہنچے اور محل گھوم کر محل کی چھت پر گئے تو سامنے دریائے سندھ حد نظر تک پھیلا ہوا تھا۔ ہوا لگتی اور دودھ جیسی سُفید ریت اُڑتی۔ سامنے ہی کہیں انڈس فلوٹیلا کا مرکزی آفیس ہوتا ہوگا اور اسی بندرگاہ پر محمد علی جناح کے والد جینا بھائی پونچا اُتر کر جھرک میں آئے ہوں گے۔ کہتے ہیں کہ محل کے جنوب میں اُس کا گھر تھا۔

(میں اس تحریر میں قائداعظم محمد علی جناح کی ولادت کے حوالہ سے اس لیے بات نہیں کر رہا کہ، ڈان ڈاٹ کام کے ان ہی صفحات پر اس موضوع کے حوالہ سے محترم اختر بلوچ صاحب کا تحقیقی بلاگ شائع ہو چکا ہے۔ جن کو اس حوالے سے ضرور مطالعہ کرنا چاہیے۔)

آغا خان اول، آغا حسن علی شاہ کا محل دیکھ کر میں نے جھرک کی دوسری گلیوں کا رخ کر لیا، جہاں ڈاکٹر صاحب کے مطابق، کچھ آثار اب بھی موجود ہیں۔

ایک گلی کے نکڑ پر، کونے میں پیلے پتھر کی ایک عمارت ملی، وقت اور لوگوں کی بے قدری نے اسے کافی نقصان پہنچایا ہے۔ یہ گھر بٹوارے کے وقت ویران ہوئے تھے اور ویرانیوں نے اپنی جڑیں کچھ یوں گاڑھ دی ہیں کہ صدیوں تک شاید رونقوں کا کوئی کونپل بھی نہ پھوٹ سکے گا ان در و دیوار پر۔۔

میں نے گلیاں دیکھیں جہاں کچھ پرانے گھر اب بھی ہیں مگر انہیں استعمال میں لایا گیا ہے۔ گلیوں میں اب بھی بیل گاڑیاں گذرتی ہیں۔ اور خاموشی اتنی ہوتی ہے کہ بیل گاڑی کے پہیوں کا ترنم دُور سے سنائی دیتا ہے۔

پھر میں اُس بازار میں گیا جو وقت کے ساتھ وسیع تو نہیں لیکن سکڑ ضرور رہی ہے۔ 1830 میں اگر دو سو دکانیں تھیں تو اب چار سو ہونی چاہئیں مگر اب 60 سے زیادہ نہیں ہیں۔ بازار پر وہ چھت بھی نہیں ہے جس کی خوبصورتی کا ذکر کرتے کرتے گورا کرسی سے گر ہی پڑا ہو گا۔ یہ شاید ایسی ہی بازار کی چھت ہوگی جیسی ایک زمانہ میں شکارپور کے بازار کی ہوا کرتی تھی۔

آج آپ جیسے بازار میں داخل ہوتے ہیں تو نائی کی دکان، مٹھائی کی دکان اور پھر پان، بیڑی اور گٹکے کی چھپرا دکانیں ہیں۔ پھر اچانک ’لتا‘ کی آواز کہیں سے شیرینی کی طرح بہتی ہوئی آئی۔

جھرک کی بازار میں واقع نائی کی دکان — تصویر ابوبکر شیخ

جھرک میں واقع پرانے گھر— تصویر ابوبکر شیخ

’ہوا میں اُڑتا جائے۔ میرا لال دوپٹہ مل مل کا ہو جی۔‘ کچھ گیت ایک پورے زمانے کی نمائندگی کرتے ہیں۔ میں اُس دکان کی طرف بڑھا جہاں سے اس گیت کی آواز آرہی تھی۔

ایک پرانی دکان تھی، لکڑی اور مٹی کی بنی ہوئی۔ ماضی میں یہ ایک شاندار دکان رہی ہوگی۔ مگر اب شانداری کے رنگ تو نہیں بس ایک دکان ہے جو کھڑی ہے اور زمانے کے تیزی سے بدلتے منظرنامے دیکھتی ہے۔ دکان کے آخری کونے میں رنگین ٹیلیویژن پر سیاہ و سفید گیت چل رہا تھا۔

چند بوڑھے بینچوں پر بیٹھے بڑے غور سے گیت کو دیکھ اور سُن رہے تھے۔ اتنے غور سے کہ سگریٹ کا کش تک لینا بھول گئے تھے۔ اُنگلیوں میں سگریٹ تھی جو سُلگتی تھی، اور اسکرین پر ماضی کے پل سُلگتے تھے۔ مجھے نہیں پتہ کہ ان پرانے گیتوں میں وہ کیا ڈھونڈ رہے تھے۔ شاید ماضی، مگر گزرے ہوئے وقت کا احساس خود ایک بڑا درد ہے۔

میں دکان سے تھوڑا شمال کی طرف آئیں تو مغرب کی طرف ایک پرانا مندر ہے اور بند ہے، پوچھنے پر پتہ چلا کہ عقیدمند خاص موقعوں پر یہاں آتے ہیں اور پوجا پاٹھ اب تک جاری ہے۔

جھرک شہر میں واقع ایک مندر — تصویر ابوبکر شیخ

بازار کی دکانیں لکڑی اور مٹی کے گارے سے بنائی گئی ہیں۔ یہاں اکثر ’لئی‘ (Tamarisk) کی لکڑی ان گھروں اور دکانوں میں استعمال ہوتی ہے اور دیوار کے دونوں طرف مٹی کے گارے کا پلستر کیا جاتا ہے۔ ایک تو یہ گرم دنوں میں ٹھنڈی رہتی ہیں اور اگر زلزلہ وغیرہ آجائے تو دُھم سے نہیں گرتیں اور اگر گر بھی جائیں تو جان و مال کا زیادہ نقصان نہیں ہوتا۔

جھرک کی اس چھوٹی سی بستی کے چاروں اطراف پہاڑی سلسلہ ہے۔ اس کے مشرق اور جنوب میں بدھ مت کے زمانے کی تاریخی مقامات ہیں۔ اس بستی کے قرب و جوار میں مجھے ’ہنومان‘ کا وہ بُت کہیں نظر نہیں آیا جس کے متعلق انگریزوں نے بہت کچھ تحریر کیا تھا۔

میں وقت کی بے قدری کے ہاتھوں لُٹی ہوئی اس بستی کے مشرق میں دریا بادشاہ کے کنارے ایک چھوٹی سی پہاڑی کی چوٹی پر آ گیا ۔پہلے کچھ کھیت تھے، پھر سفید ریت تھی پھر درختوں کا جنگل تھا، پانی کہیں نہیں تھا، نہ کوئی بادبانی کشتی نظر آئی اور نہ دھواں اُڑاتا اسٹیمر۔ نہ کسی بندرگاہ کے آثار۔ وہ کنارے جو ایک زمانے میں مصروفیتوں کی وجہ سے مشہور تھے وہاں اب ویرانی اور خاموشی بستی ہے۔

یہ زندگی بھی عجیب ہے۔ اختتام کبھی اچھا نہیں ہوا۔ آخر کمال کی کوکھ میں زوال کا بیج کیوں پلتا ہے آخر۔۔!


ابوبکر شیخ آرکیولاجی اور ماحولیات پر لکھتے ہیں۔ انٹرنیشنل یونین فار کنزرویشن آف نیچر کے لیے فوٹوگرافی اور ریسرچ اسٹڈیز بھی کر چکے ہیں۔

ان کا ای میل ایڈریس abubakersager@gmail.com ہے۔


ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔

ابوبکر شیخ

ابوبکر شیخ آرکیولاجی اور ماحولیات پر لکھتے ہیں۔ ان موضوعات پر ان کی 5 کتابیں شائع ہوچکی ہیں۔ انٹرنیشنل یونین فار کنزرویشن آف نیچر کے لیے فوٹوگرافی اور تحقیقی مطالعہ بھی کر چکے ہیں۔

ان کا ای میل ایڈریس abubakersager@gmail.com ہے۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔