کرنٹ اکاؤنٹ خسارے میں 200 فیصد اضافہ
کراچی: مالی سال 17-2016 کے ابتدائی 10 ماہ کے دوران کرنٹ اکاؤنٹ خسارے میں 200 فیصد تک اضافہ ریکارڈ کیا گیا جو کہ بیرونی سیکٹر کے لیے سب سے بڑا خطرہ ہے۔
اسٹیٹ بینک آف پاکستان کی جانب سے جاری اعداد و شمار کے مطابق جولائی 2016 سے اپریل 2017 تک ملک کا کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ بڑھ کر 7.24 ارب ڈالر تک پہنچ گیا۔
کرنٹ اکاؤنٹ خسارے میں یہ ریکارڈ اضافہ اس بات کا اشارہ ہے کہ بیرونی ادائیگیوں کے معاملے پر ایک بحران سر اٹھانے کے لیے تیار ہے۔
یہ بھی پڑھیں: کرنٹ اکاؤنٹ خسارے میں 90 فیصد اضافہ
خیال رہے کہ بیرونی سیکٹر کسی بھی ملک کی معیشت کا وہ حصہ ہوتا ہے جو کہ دوسرے ملک کی معیشتوں سے رابطے رکھتا ہے جبکہ یہی شعبہ ملکی درآمدات و برآمدات کو بھی دیکھتا ہے۔
عام طور پر جب کسی ملک کی برآمدات کم اور درآمدات کا حجم بڑھ جائے تو بیرونی ادائیگیوں میں عدم توازن پیدا ہوجاتا ہے جس کی وجہ سے ملک کا کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ بھی بڑھتا رہتا ہے۔
یہ امکان بھی ظاہر کیا جارہا ہے کہ رواں مالی سال کے آخر تک کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ 9 ارب ڈالر تک پہنچ سکتا ہے کیوں کہ ہر ماہ اس میں تیزی سے اضافہ ہورہا ہے۔
اپریل کے مہینے میں بھی جاری کھاتوں کا خسارہ ریکارڈ سطح پر رہا اور 1.13 ارب ڈالر تک پہنچ گیا جبکہ مارچ میں خسارہ 54 کروڑ 60 لاکھ ڈالر تھا۔
مزید پڑھیں: پاکستان میں 20 ارب ڈالر کے ترسیلات زر کی آمد
چونکہ ملکی برآمدات کی کارکردگی انتہائی ناقص ہے لہٰذا پالیسی سازوں کو فارن ایکسچینج کے ذخائر کو ملک سے باہر جانے سے روکنا مشکل ہورہا ہے۔
ایسا محسوس ہوتا ہے کہ واحد حل انٹرنیشنل مارکیٹ اور آئی ایم ایف سے عالمی مالیاتی اداروں سے قرض حاصل کرنا رہ گیا ہے۔
10 ماہ کے دوران تجارتی خسارہ 26 ارب ڈالر رہنے کے بعد حکومت کے پاس اس کا کوئی جواز باقی نہیں رہتا تاہم حکومت کا کہنا ہے کہ 40 فیصد درآمدات ان مشینری پر مشتمل تھی جن کے استعمال سے بالآخر برآمدات میں اضافہ ہوگا۔
حکومت نے برآمدات کو بڑھانے کے لیے 100 ارب روپے کے فنڈز مختص کیے تھے تاہم ایکسپورٹرز اس سہولت کو مکمل طور پر فائدہ نہیں اٹھاسکے۔
اسٹیٹ بینک کے مطابق 10 ماہ کے دوران حکومت کا درآمدی بل 22.62 ارب ڈالر سے بڑھ کر 44.87 ارب ڈالر ہوگیا۔
یہ بھی پڑھیں: براہ راست بیرونی سرمایہ کاری میں 128 فیصد کمی
ترسیلات زر میں ہونے والی کمی نے بھی بیرونی سیکٹر کو خطرے سے دوچار کردیا ہے حالانکہ گزشتہ 10 ماہ کے دوران ترسیلات زر میں ہونے والی 2.7 فیصد کمی کچھ زیادہ نہیں تاہم یہ اس بات کا اشارہ ہے کہ آنے والے دن پاکستانی معیشت کے لیے مشکل ثابت ہوسکتے ہیں کیوں کہ ملک کرنٹ اکاؤنٹ خسارے پر قابو پانے کے لیے ترسیلات زر پر بہت زیادہ انحصار کرتا ہے۔
کرنٹ اکاؤنٹ خسارے کے بڑھتے ہوئے حجم کو محض ترسیلات زر کے ذریعے نہیں پورا کیا جاسکتا کیوں کہ گزشتہ 10 ماہ کے دوران ترسیلات زر کا حجم محض 15.6 ارب ڈالر رہا۔