پاکستان

’مشعال خان کی بہنوں کو اسلام آباد میں پڑھایا جائے‘

سپریم کورٹ میں مشعال قتل کیس کی سماعت، چیف جسٹس نے پولیس سے حتمی چالان طلب کرتے ہوئے سماعت 3 ہفتوں کیلئے ملتوی کردی۔

اسلام آباد: پشاور کی عبدالولی خان یونیورسٹی میں طلبہ کے تشدد سے ہلاک ہونے والے 23 سالہ طالب علم مشعال خان کے والد اقبال خان کا کہنا ہے کہ پولیس نے محض ’اداکار پکڑے ہیں ہدایت کار نہیں‘۔

سپریم کورٹ آف پاکستان میں مشعال خان قتل کیس کے از خود نوٹس کیس کی سماعت ہوئی جس میں مشعال خان کے والد اور ان کے وکیل بھی پیش ہوئے۔

خیال رہے کہ مشعال خان کو مبینہ گستاخی کے الزام میں یونیورسٹی کے اندر ہی مشتعل طلبہ نے تشدد کرکے ہلاک کردیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: مشعال کے اہلخانہ کا ساتھ نہ دینے پر پڑوسیوں کی معافی

چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس ثاقب نثار کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے کیس کی سماعت کی جبکہ خیبر پختونخوا (کے پی کے) پولیس کی جانب سے رپورٹ عدالت میں جمع کرادی گئی۔

رپورٹ میں بتایا گیا کہ اب تک اس کیس میں ملوث ہونے کے الزام میں 53 ملزمان گرفتار ہو چکے ہیں، 49 ملزمان جیل میں، 4 ریمانڈ پر جبکہ 2 مفرور ہیں۔

رپورٹ میں یہ بھی دعویٰ کیا گیا کہ مشعال خان کے قتل کے مرکزی ملزم عمران کو گرفتار کر لیا گیا ہے اور اس نے اقبال جرم بھی کر لیا ہے۔

اس موقع پر چیف جسٹس نے کہا کہ جو ملزمان گرفتار ہوئے ابھی ان پر جرم ثابت نہیں ہوا، ملزمان کے حقوق کو متاثر نہیں کرنا چاہتے۔

مشعال خان کے والد نے عدالت میں اپنے بیان میں کہا کہ ’پولیس نے اداکار پکڑے ہیں، ہدایت کار نہیں پکڑے، میرے بیٹے کو صبح 10 سے 3 بجے کے دوران تک قتل کیا گیا‘۔

جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ ’یہ اہم نقطہ ہمارے ذہن میں ہے، اگر مجرمانہ غفلت ہوئی تو مکمل تحقیقات ہوں گی، ہم انصاف کریں گے‘۔

مشعال خان کے والد نے کہا کہ پولیس جائے وقوع پر موجود تھی، لیکن کسی نے کچھ نہ کیا، میرا بیٹا ملک کا اثاثہ تھا‘۔

چیف جسٹس نے کہا کہ ’مشعال خان کا قتل ایک لمحے کا واقعہ نہیں، قتل کے پیچھے احتجاج اور مہم ہے، پولیس کو خبر تک نہیں پہنچی، مشعال خان کی لاش کے ساتھ کیا ہوا، ہمیں پتا ہے، پولیس کی مجرمانہ غفلت تھی تو محکمے نے کیا کاروائی کی؟‘

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ پولیس سیکیورٹی کا ادارہ ہے کہیں وہ ملزمان کو تحفظ تو دینے کی کوشش تو نہیں کررہا؟

مزید پڑھیں: مشعال پر لگائے گئے الزامات غلط ہیں، بہن

عدالت میں موجو مشعال خان قتل کے مقدمے کی پیروی کرنے والے وکیل ایڈووکیٹ خواجہ اظہر نے کہا کہ واقعے کی ویڈیو شواہد کے طور پر کافی ہے۔

اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ ویڈیو کو جانچنا پراسیکیوشن کا کام ہے کہ ویڈیو سوشل میڈیا سے حاصل کی گئی یا سی سی ٹی وی سے۔

مشعال کی بہنوں کا معاملہ

وکیل خواجہ اظہر نے کہا کہ مشعال کی دو بہنیں واقعے کے بعد تعلیمی اداروں میں نہیں جا سکتیں، اہم گواہ ڈاکٹر ضیاء اللہ پر ابھی تک جرح نہیں کی گئی۔

چیف جسٹس نے کہا کہ عدالت اور گواہان کو تحفظ فراہم کرنا ریاست کی ذمہ داری ہے، کیس ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کرنے کے لیے قانون موجود ہے۔

وکیل نے عدالت سے درخواست کی کہ مشعال خان کی بہنوں کو اسلام آباد میں پڑھایا جائے جبکہ مشعال خان کے والد نے کہا کہ ’ہمارا بہت نقصان ہو چکا ہے‘۔

اس موقع پر چیف جسٹس نے کہا کہ ’یہ صرف آپکا نہیں پوری قوم کا نقصان ہے، بچیوں کو کس اسکول میں پڑھانا چاہتے ہیں، ہمیں بتائیں لیکن بچیاں تعلیم کے لیے مردان سے روز اسلام آباد کیسے آئیں گی؟‘۔

چیف جسٹس کا مزید کہنا تھا کہ بچیوں کو اگر ہاسٹل میں داخل کرایا جائے تو اس میں بھی تحفظ کا مسلئہ ہو گا، پورے خاندان کو ہجرت کرنا پڑے گی۔

یہ بھی پڑھیں: معاملہ گستاخی نہیں، مشعال کے خلاف سازش تھی: عمران خان

وکیل استغاثہ نے عدالت میں کو بتایا کہ کے پی کے حکومت نے جوڈیشل کمیشن کی تشکیل کے حوالے سے دی گئی درخواست واپس لے لی ہے۔

خیبر پختونخوا کے صوبائی محکمہ داخلہ نے مشعال خان قتل کیس کی جوڈیشل انکوائری کا فیصلہ واپس لینے کا اعلامیہ بھی جاری کردیا ہے۔

وزیر اعلیٰ کے پی کے پرویز خٹک نے جوڈیشل انکوائری واپس لینے کی سمری پر دستخط کیے جبکہ یہ فیصلہ سپریم کورٹ کے ازخود نوٹس لینے کے بعد کیا گیا۔

آخر میں چیف جسٹس نے کہا کہ مشعال خان کے والد کو عدالت آنے کی ضرورت نہیں، اگر انہیں کوئی عذر ہو تو انسانی حقوق سیل میں تحریری چھٹی دیں جبکہ عدالت نے پولیس کو حتمی چالان جلد پیش کرنے کی بھی ہدایت جاری کردی۔

بعد ازاں عدالت نے کیس کی سماعت تین ہفتوں کے لیے ملتوی کردی۔