—فوٹو: رائٹرز
پلان کے اندر مارکیٹ کے بارے میں مناسب تفصیلات بھی شامل ہیں۔ مارکیٹ سے 17 خصوصی منصوبوں سمیت 10 اہم منصوبوں کو بھی واضح کیا گیا ہے، جن میں ابتدائی طور پر ’8 لاکھ ٹن کے سالانہ پیداوار والے’ ایک این پی کے فرٹیلائزر پلانٹ کی تعمیر شامل ہے۔ کمپنیوں کو، کھیتوں میں کام کرنے کے لیے ضروری ساز و سامان جیسے ٹریکٹر، ’پودوں کے مؤثر تحفظ کی مشینری، کم توانائی استعمال کرنے والے پمپ کے سازوسامان، ڈرپ آبپاشی کے ذریعے فصل اگانے کے نظام کا سازوسامان’ اور فصل کی بوائی اور کٹائی کی مشینری کرائے پر دینے کے لیے' قائم کیا جائے گا۔
سکھر میں 2 لاکھ ٹن کی سالانہ پیداوار دینے والے گوشت پروسسنگ پلانٹس اور ہر سال 2 لاکھ ٹن دودھ پروسس کرنے والے دو نمائشی پلانٹس کی منصوبہ بندی کی گئی ہے۔ کاشتکاری کی بات کریں تو، زیادہ پیداوار دینے والے بیجوں اور آبپاشی کے نمائشی منصوبوں کے لیے 6 ہزار 5 سو ایکڑ سے زیادہ زمین، زیادہ تر پنجاب میں مختص ہوگی۔ ٹرانسپورٹ اور گودام کے شعبے کی بات کریں تو پلان میں ایک ’ملکی سطح پر لاجسٹکس نیٹ ورک بنانے اور پاکستان کے بڑے شہروں کے درمیان گوداموں اور اناج، سبزیوں اور پھلوں کو دھیان میں رکھتے ہوئے تقسیم کاری کے نیٹ ورک میں توسیع کرنے کے بارے میں بھی بتایا گیا ہے۔ پہلے مرحلے میں اسلام آباد اور گوادر میں گودام تعمیر کیے جائیں گے، دوسرے مرحلے میں کراچی، لاہور اور ایک دوسرا گوادر میں تعمیر کیے جائیں گے اور 2026 اور 2030 کے درمیان کراچی، لاہور اور پشاور میں بھی ایک ایک گودام تعمیر کیا جائے گا۔
دستاویزات سے ظاہر ہوتا ہے کہ منصوبے میں خصوصی طور ٹیکسٹائل انڈسٹری میں دلچسپی لے گئی ہے، مگر اس دلچسپی کا زیادہ تر انحصار سوتی، اونی اور کھاردار کپڑوں پر ہوگا۔
اسد آباد، اسلام آباد، لاہور اور گوادر میں سبزیوں کے پراسسنگ پلانٹ بنائے جائیں گے، جن کی سالانہ پیداوار 2 ہزار ہوگی، 10 ہزار ٹن کی پیداوار کے حامل پھلوں کے جوس اور جیم کے پلانٹ اور 10 لاکھ ٹن پیداوار دینے والے ناج کے پراسسنگ پلانٹ بنائے جائیں۔ سالانہ 1 لاکھ پیداوار دینے والے کاٹن کے پراسسنگ پلانٹ کی تعمیر بھی پہلے مرحلے کی منصوبہ بندی میں شامل ہے۔
حکومت کی جانب سے حاصل کردہ زمینوں کو چینی سرمایہ کاری کی حامل کمپنیوں کو کرائے پر دیئے جانے اور کاشتکاری اور بریڈنگ مراکز کی تعمیرات کے ذریعے کسانوں اور کاشتکاروں کو کاشتکاری اور بریڈنگ کے جدید طریقوں سے آراستہ کیا جائے گا۔
زیادہ پیداوار دینے والے اعلیٰ معیار کے بیجوں کے حوالے سے پلان میں کہا گیا کہ ’ہم حکومت کی جانب سے دی جانے والی زمین کو چینی سرمایہ کاری کی حامل کمپبیوں کو کرائے پر دینے اور کاشتکاری اور افزائش نسل کے جدی حوالے سے تعمیر کردہ مراکز کو استعمال میں لاتے ہوئے جدید طریقوں سے آراستہ کریں گے'۔
زرعی سازو سامان کی پیداوار کے بارے میں کہا گیا، 'ہر شعبے میں چینی کمپنیاں مرکزی کردار ادا کریں گی۔ چینی سرمایہ کاری کی حامل کمپنیاں کھاد، کیڑے مار دواؤں اور مویشیوں کے چارے کی پیداوار کے لیے کارخانے قائم کریں گی۔'
گودام کے موضوع پر کہا گیا، 'چینی سرمایہ کاری کی حامل کمپنیاں، مشترکہ منصوبوں، شراکت داری یا کثیر سرمایہ کاری کی صورت میں، گوداموں کی تین مرحلوں میں تعمیر میں پاکستانی کمپنیوں کے ساتھ تعاون کریں گی (جن میں پرچیز اور اسٹوریج، ٹرانزٹ گودام اور پورٹ گودام شامل ہیں)'۔
اس کے بعد کاروبار کے بارے میں بات کی گئی، 'ہم پاکستانی زرعی اشیا کی درآمدگی کو بہتر کرنے اور برآمدگی کی استعداد کو بڑھانے اور زرعی اشیا کے کاروبار کو تیز کرنے کے لیے سرگرم ہو کر ارد گرد کے ملکوں کے اندر کاشتکاری پر کام کریں گے'۔
دستاویزات میں منصوبے میں شامل ایک خصوصی اور دلچسپ باب کا ذکر بھی کیا گیا، جس میں ساحلی پٹی کے علاقوں میں سمندری سیاحت وآتش بازی کے سیاحتی منصوبے، پارکس، کھیل کے میدانوں، تھیٹرز اور گولف کورسز کی تعمیر، موسم گرما و سرما کے حساب سے ہوٹلز اور واٹر اسپورٹس جیسے منصوبوں کی تعمیر شامل ہے۔
کسی کسی جگہ یہ پلان چین میں موجود سرمایہ کاروں سے ہم کلام ہوتا نظر آتا ہے۔ اس میں لکھا ہے کہ 'چینی کمپنیوں کو پاکستانی کمپنیوں کے ساتھ مربوط تعاون اور شفاف دو طرفہ مقابلے اور باہمی تعاون کو برقرار رکھنے کی کوشش کرنی چاہیے۔' انہیں مشورہ دیا گیا ہے کہ پاکستان میں زیادہ سے زیادہ فائدہ حاصل کرنے کے لیے غیر معمولی حکمت عملی کے حامل شراکت داروں کی تلاش کے لیے اقدام کریں۔
سیکیورٹی اقدامات کے طور پر، کمپنیوں کو مقامی لوگوں کے مذاہب اور رسومات کا احترام، لوگوں سے برابری کا سلوک کرنے اور ہم آہنگی کے ساتھ رہنے کا مشورہ دیا جائے گا۔ انہیں مقامی ملازمتوں میں اضافے ذیلی معاہدوں اور کنسورشیم کے ذریعے مقامی معاشرے کے لیے کام کرنے کا بھی مشورہ دیا جائے گا۔ پلان میں زراعت کے موضوع پر لکھے باب کی آخری لائن میں درج ہے کہ چینی حکومت اہم ممالک، خطوں اور بین الاقوامی تنظیموں کے ساتھ حفاظتی تعاون کو مضبوط کرے گی، تا کہ ان دہشتگرد کارروائیوں سے مشترکہ طور پر مقابلہ کیا جاسکے جو بیرون ملک چینی کمپنیوں اور ان کے اسٹاف کے لیے خطرہ بن سکتے ہیں۔
صنعت یہ منصوبہ ملک کو تین صنعتی حصوں میں تقسیم کرتا ہے؛ مغربی اور شمال مغربی، وسطی اور جنوبی حصہ۔
ان حصوں میں سے ہر ایک زون نامزد صنعتی پارکس میں سے مخصوص صنعتیں وصول کرے گا جن میں سے چند ایک کا تذکرہ کیا گیا۔
مغربی اور شمال مغربی حصہ جو زیادہ تر بلوچستان اور خیبر پختونخوا پر مشتمل ہے ان علاقوں کو معدنیات نکالنے کے حوالے سے ظاہر کیا گیا ہے خصوصاَ کروم کچ دھات، سونا اور ہیرے کے حصول کے لیے۔
ایک اور معدنیات جس کے بارے میں یہ منصوبہ بتاتا ہے وہ سنگ مرمر ہے اور چین پاکستان سے سنگ مرمر خریدنے والا سب سے بڑا ملک ہے جو ہر سال 80 ہزار ٹن سنگ مرمر خریدتا ہے۔
منصوبے کے مطابق شمال میں گلگت اور کوہستان کے علاقے سے لے کر جنوب میں خضدار تک 12 سنگ مر مر اور گرینائٹ کی پروسیسنگ کے کارخانے لگائے جائیں گے۔
وسطی زون کو ٹیکسٹائل، گھریلو استعمال کی اشیاء اور سیمنٹ کی صنعتوں کے لیے مختص کیا گیا ہے اور چار علاقوں داؤد خیل، خوشاب، عیسیٰ خیل اور میاںوالی کو علیحدہ سے ظاہر کیا گیا ہے جہاں مستقبل میں سیمنٹ تیار کی جائے گی۔
منصوبے کے تحت پشاور میں پائلٹ محفوظ شہر بنائے جانے کا بھی ذکر ہے، جہاں مغربی پاکستان کے علاقوں میں سیکیورٹی کی صورتحال قدرے بدتر ہے۔
سیمنٹ کا معاملہ دلچسپ ہے کیونکہ اس منصوبے میں بتایا گیا ہے کہ پاکستان سیمنٹ کی صلاحیت سے مالا مال ہے جبکہ یہ بھی کہا گیا ہے کہ مستقبل میں سیمنٹ پراسیس کی ٹرانسفورمیشن کے لیے چین کے پاس سرمایہ کاری اور تعاون کے بڑے مواقع موجود ہوں گے۔
جنوبی زون میں یہ منصوبہ تجویز دیتا ہے کہ 'کراچی اور اس کی بندرگاہ قریب ہونے کی وجہ سے پاکستان اس خطے میں پیٹروکیمیکل، لوہے اور اسٹیل کی صنعت، بندرگاہ کی صنعت، انجینیئرنگ مشینری کی صنعت، تجارتی پروسیسنگ اور آٹو پارٹس تیار کرنے کی صنعت تعمیر کرے'۔
حیران کن طور پر یہ اس رپورٹ کا واحد حصہ ہے جس میں آٹو انڈسٹری کا واضح طور پر تذکرہ کیا گیا ہے حالانکہ یہ صنعت ملک میں تیزی سے بڑھتی ہوئی صنعت ہے۔