لائف اسٹائل

40 روز میں 5 عالمی ریکارڈ حاصل کرنے والا بے گھر پاکستانی نوجوان

فلاحی تنظیموں اور دوسرے این جی اوز والوں کو پسماندہ علاقوں سے تعلق رکھنے والے ایسے نوجوان کیوں نظر نہیں آرہے؟

جنوبی وزیرستان ایجنسی کئی حوالوں سے مشہور ہو چکی ہے یا کر دی گئی ہے۔ اس کے تحصیل لدھا کا ایک 10 ویں جماعت کا اسٹوڈنٹ، کھیل و تفریح سے رغبت رکھتا تھا۔

یہ نوجوان جیکی چن کی فلمیں دیکھتا تھا، یہاں سے اس کا شوق مارشل ارٹس کی طرف مزید بڑھ گیا۔ محمد عرفان محسود 2009 کے آپریشن راہ نجات کی وجہ سے بے گھر ہو کر ڈیرہ اسماعیل خان منتقل ہوا۔ عرفان محسود آج کل ڈیرہ اسماعیل خان کے گومل یونیورسٹی میں ایم فل لیڈنگ ٹو پی ایچ ڈی کے طالب علم ہیں۔

عرفان محسود 'واشو کنگفو' کی مہارت کا یہ حال ہے کہ چند ماہ قبل 40 دنوں کی قلیل مدت میں مسلسل 5 عالمی اعزازات کے حصول میں کامیاب ہو چکے ہیں۔

انتہائی غربت کی حالت میں عرفان محسود نے ورلڈ گینیز بک آف ریکارڈ کے لیے اپنی جیب خرچ سے درخواستیں جمع کیں، تو اسی قلیل مدت میں عرفان محسود پانچ عالمی ریکارڈز کے حامل قرار دے کر نام ورلڈ گینز بک آف ریکارڈ میں درج کروانے میں بھی کامیاب ہو ئے۔ دو مزید ریکارڈ اس وقت کڑی جانچ پڑتال سے گزر رہی ہے، مگر عرفان محسود کو یقین ہے کہ وہ بھی جلد اپنے نام کریں گے اور یوں پاکستان کا نام روشن کرنے میں حصہ ڈالیں گے۔

26 سالہ عرفان محسود پوری قبائلی پٹی سے تاریخ کا پہلا عالمی ریکارڈ یافتہ نوجوان ہے۔

عرفان محسود کے ریکارڈز مختلف زمرے کے ہیں، جن میں، اپنی کمر پر 40 پاؤنڈز وزن رکھ کر نکلز، انگلیوں کے ہتھیلی کے ساتھ جوڑ کے بل پر 60 سیکنڈ میں سب سے زیادہ (26) پش اپس لگانے کا ریکارڈ اپنے نام کیا ہے۔

اسی طرح ایک ٹانگ پر کھڑے ہو کر گھٹنے سے ایک منٹ میں 87 ککس لگا کر عالمی ریکارڈ توڑ ڈالا۔

ایک پاؤں اٹھا کر 31 پش اپس، جبکہ کمر پر 40 پاؤنڈ وزن بھی تھا۔

اسی طرح 80 پاؤنڈز وزن کے ساتھ ایک پاؤں اٹھا کر ایک پاؤں سے 21 پش اپس کا ریکارڈ بھی توڑ ڈالا۔

اسی طرح 21 ایک پاؤں کے ساتھ نکلز پش اپس 40 پاؤنڈ وزن کے ساتھ ایک منٹ میں لگانا۔

گینیز بک آف ورلڈ ریکارڈز نے عرفان محسود کو 'سیریل ریکارڈز بریکر' دوسرے الفاظ میں مسلسل ریکارڈ توڑنے والے کھلاڑی کا نام دیا ہے۔

26 سالہ عرفان کے ساتھ ایک حالیہ ملاقات میں اندازہ ہوا کہ موصوف کی مالی حالت کافی خراب ہے۔

عرفان محسود نے بتایا کہ وہ اپنی مدد آپ کے تحت ڈیرہ اسماعیل خان سٹی میں مارشل آرٹس کی ایک اکیڈمی 'جیکی چن ووشو اینڈ مارشل ارٹس اکیڈمی' چلا رہے ہیں، ان کے قریب 50 اسٹوڈنٹس ہیں۔ موصوف سے پوچھا گیا، اتنے سارے عالمی اعزازات کے حصول کے بعد کسی حکومتی صوبائی، وفاقی، گورنر ہاؤس، یا کسی پولیٹیکل ایجنٹ کی آفس سے کوئی فون کال بھی آئی؟ اس مرد قلندر کا جواب نفی میں تھا۔ ایک بار پولیٹیکل ایجنٹ نے ڈیرہ اسماعیل خان سے عرفان محسود کو اپنے دفتر بلایا۔ایجنسی کے اس بے تاج بادشاہ کے آفس کے سامنے دو گھنٹے انتظار کروایا، کیوں بھئی؟ پولیٹیکل ایجنٹ جو ہیں!

عرفان محسود کا کہنا ہے کہ جوں ہی داخل دفتر ہوا پولیٹیکل ایجنٹ صاحب نے ہاتھ ملایا، اور جھٹ سے کہا میرے پاس وقت نہیں تھنک یو، اور باہر ٹیبل پر ایک لفافہ تھما دیا جس میں کچھ رقم تھی۔ عرفان محسود نے اپنے شرمیلے انداز میں کہا کہ وہ سخت مایوس اور شرمندہ ہو گئے کہ ڈیرہ اسماعیل خان سے بلوا کر پورا دن ضایع کیا اور پہنچا تو صرف ہاتھ ملا کر کہا کہ آپ جا سکتے ہیں میرے پاس وقت کی کمی ہے۔

اس عالمی ریکارڈ یافتہ نوجوان کے احساسات کا قتل کر کے ہم کس کی خد مت کرنا چاہتے ہیں۔

اسلام آباد آئے ہوئے عرفان محسود کو جب غور سے دیکھا کہ اللہ تعالیٰ نے کتنی قوت و طاقت سے نوازہ ہے پر عاجزی اور ملنساری کا ایک عجیب مجموعہ تھا۔

شرمیلی آنکھیں، دھیما لہجہ، پر سکون باتیں، زیر لب مسکراہٹ، جس سے بھی ملتے انتہائی باداب اور خوش مزاجی سے ملتے، اسٹوڈنٹس سیلفی کے لیے قریب جاتے تو یہ شرمیلہ سا انسان ایسا ملتا جیسا کہ سب کا پُرانا ساتھی ہو، یعنی کہ مارشل آرٹس اور وشو کنگفو کے ایسے کھلاڑی تو اکثر و بیشتر لڑنے کیلئے لوگ ڈھونڈتے ہیں۔ بس عرفان محسود بار بار یہی کہتا تھا کہ ہم نے اس ملک کا نام روشن کرنا ہے، اس کی خدمت ہم کو ہی کرنی ہے۔

عرفان نے تو اپنے حصے کا کام کرڈلا، وہ علاقہ جو بم، بارود اور بندوق سے مشہور کر دیا گیا ہے، عرفان تو کھیل تفریح اور مثبت سرگرمیوں کی طرف چلا گیا۔ نہ صرف چلا گیا بلکہ اپنا لوہا بھی عالمی سطح پر منوا لیا۔

عرفان محسود کی اکیڈمی اور سامان کی فراہمی کے لیے وزارت کھیل سے بھی بالواسطہ رابطہ کیا گیا، عرفان محسود زبردست منصوبے رکھتے ہیں، وہ قبائلی نوجوانوں کو کھیل اور مثبت سرگرمیوں کی جانب راغب کرنا چاہتے ہیں۔ ایسے نواجونوں کی حوصلہ افزائی اور مدد سے ہی قبائلی عوام کی خدمت اور مین اسٹریمنگ ہو سکتی ہے۔

اگر عرفان محسود کو باقاعدہ سامان اور اکیڈمی کیلئے جگہ مل جائے تو مجھے یقین ہے چند ہی ماہ میں اس کھیل کی طرف لوٹ آنے والے قبائلی نوجوان اور عام پاکستانی ڈیرہ اسماعیل خان اور ٹانک کے نوجوان ہزاروں کی تعداد میں اس اکیڈمی سے مستفید ہو سکتے ہیں۔ کیا یہ مہنگا سودا ہے؟ اگر ایک عرفان سال میں 1000 ہزار (بطورمثال) نوجوانوں کو اس کھیل کی جانب راغب ہو سکتے ہیں۔

میرے فلاحی تنظیموں اور دوسرے این جی اوز والو! کیا آپ لوگوں کیلئے پسماندہ علاقوں سے عرفان محسود جیسا ہیرا نظر نہیں آ رہا؟

اگرچہ مقامی تنظیم محسود ویلفیر ایسوسی ایشن نے اپنے ایک پروگرام میں عرفان محسود کو باقاعدہ شیلڈ بھی پیش کی تھی اور کچھ 10 ہزار کا انعام بھی دیا تھا۔

لیکن ہماری درخواست ہوگی محسود ویلفیئر ایسوسی ایشن والوں سے اگر آپ کے پاس وسائل نہیں ٹھیک مگر عرفان کی اخلاقی سپورٹ اور مدد جاری رکھی جائے۔

جنوبی وزیرستان سے سنیٹر محمد صالح شاہ قریشی اور ایم این اے جمال الدین محسود کا اخلاقی فریضہ ہے کہ عرفان محسود کی وزیر اعظم سے ملاقات کا اہتمام فرمائیں۔ یہ آپ کا بندہ ہے ہم سب کا بندہ ہے۔ یہ ایک پاکستانی ہے لیکن غربت کی وجہ سے اکیڈمی می بھی نہیں چلا سکتے۔

اس کی حوصلہ افزائی ہم سب پر قرض ہے اور اخلاقی طور پر لازمی بھی ہے، کھیل ایک مثبت سرگرمی ہے۔ صحت مند معاشرے صحت مند افرادی قوت مہیا کرتی ہے۔