پاکستان

غیرملکی فنڈنگ کامعاملہ الیکشن کمیشن بھجوانےپرپی ٹی آئی سےموقف طلب

سپریم کورٹ کا لیگی رہنماؤں کی جانب سے کیس پرتبصروں پر برہمی کا اظہار، عدالتوں کی توہین برداشت نہ کرنے کی واضح تنبیہ

اسلام آباد: سپریم کورٹ نے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے چیئرمین عمران خان کے خلاف غیر ملکی فنڈنگ اور اثاثے چھپانے کے حوالے سے کیس کی سماعت کے دوران پی ٹی آئی کے وکیل سے فنڈنگ کا معاملہ الیکشن کمیشن کو بھجوانے پر موقف طلب کرلیا، دوسری جانب عدالت عظمیٰ نے لیگی رہنماؤں کی جانب سے کیس پر تبصروں پر شدید برہمی کا اظہار کیا۔

خیال رہے کہ عمران خان اور جہانگیر ترین کے خلاف الیکشن کمیشن (ای سی پی) میں اثاثے اور آف شور کمپنیاں ظاہر نہ کرنے سمیت بیرون ملک سے حاصل ہونے والے مبینہ فنڈز سے پارٹی چلانے کے الزامات پر مسلم لیگ کے رہنما حنیف عباسی نے سپریم کورٹ میں درخواست دائر کی تھی۔

عمران خان اور جہانگیر ترین کے خلاف حنیف عباسی کی درخواستوں پر سماعت چیف جسٹس ثاقب نثار کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 3 رکنی بینچ نے کی۔

تاہم باقاعدہ سماعت سے قبل چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے لیگی ارکان قومی اسمبلی حنیف عباسی اور دانیال عزیز کو روسٹرم پر طلب کیا اور کیس سے متعلق تبصروں پر سوال کیا کہ 'آپ سے کون سا امتیازی سلوک ہورہا ہے؟'

چیف جسٹس نے واضح کیا کہ 'عدالتوں کی توہین کسی صورت برداشت نہیں کی جائے گی'، ان کا مزید کہنا تھا کہ 'اداروں پر بداعتمادی کی فضا ختم کریں، یہ آپ کے ادارے ہیں، ان کو مضبوط کریں'۔

جس پر دانیال عزیز نے وضاحت کی کہ انہوں نے زیر سماعت کیس کے بارے میں نہیں الیکشن کمیشن کے کیسز پر بات کی تھی۔

جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ ہم سب پر واضح کررہے ہیں کہ کوئی بات برداشت نہیں کریں گے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ 'کل کو آپ نے بھی ان ہی عدالتوں میں آنا ہے، ابھی تک صرف عدالتی احاطے میں بات کرنے سے روکا ہے، یہی روش برقرار رہی تو مکمل پابندی عائد کردیں گے'۔

اس پر حنیف عباسی کے وکیل اکرم شیخ نے دونوں رہنماؤں کو عدالت کی ہدایات پر من و عن عمل کرنے اور معذرت کا مشورہ دیا۔

واضح رہے کہ آج الیکشن کمیشن کی جانب سے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے چیئرمین عمران خان اور سیکریٹری جنرل جہانگیر ترین کی نااہلی کے لیے مسلم لیگ (ن) کے ارکان اسمبلی کی درخواستوں پر سماعت 5 جون تک ملتوی کیے جانے کے فیصلے پر دانیال عزیز نالاں نظر آئے تھے اور انھوں نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا تھا کہ وزیراعظم نواز شریف کے ساتھ ہونے والے امتیازی سلوک کے حوالے سے جلد درخواست دائر کی جائے گی۔

دانیال عزیز کا مزید کہنا تھا کہ پی ٹی آئی پارٹی فنڈنگ کیس میں نہ صرف عمران خان بلکہ ان کی جماعت ہی نااہل ہوسکتی ہے۔

مزید پڑھیں: غیرملکی فنڈنگ: عمران خان کو بیان حلفی جمع کرانے کی ہدایت

سماعت کے دوران پی ٹی آئی کے وکیل انور منصور نے حنیف عباسی کی درخواست پر جواب جمع کروایا، جس میں بینک اکاؤنٹس، پارٹی کی فنانشل اسٹیٹ منٹس سمیت پی ٹی آئی یو ایس اے چیپٹر کی فنانشل بریف، 2013 تا 2015 تک الیکشن کمیشن میں جمع کرئے گئے گوشواروں کی تفصیلات اور فارن فنڈنگ سے متعلق تفصیلات بھی شامل تھیں۔

تحریک انصاف کے وکیل انور منصور خان نے دلائل کے دوران حنیف عباسی کی درخواست کے قابل سماعت ہونے پر اعتراض اٹھا دیا اور کہا کہ مدعی متاثرہ فریق نہیں ہے۔

انور منصور خان کا کہنا تھا کہ عطیہ، امداد اور فنڈ تینوں میں فرق ہے، تحریک انصاف نہ تو فنڈ لیتی ہے اور نہ ہی امداد بلکہ صرف عطیات وصول کرتی ہے۔

جس پر جسٹس فیصل عرب کا کہنا تھا کہ ایک فرد کی جانب سے دیا گیا چندہ غیر مشروط جبکہ فنڈ مشروط ہو سکتا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: غیرملکی فنڈنگ، اثاثے چھپانے پر عمران خان کےخلاف مزید ثبوت طلب

پی ٹی آئی کے وکیل نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ سیاسی جماعتوں کے آرڈیننس کا سیکشن 6 ون، ٹو اور تھری کہتا ہے کہ پارٹی اپنے ممبر اور سپورٹر سے عطیات لے سکتی ہے جبکہ کسی بھی غیرملکی حکومت، سیاسی جماعت یا ادارے سے امداد لینا ممنوع ہے۔

جسٹس عمر عطا بندیال نے استفسار کیا کہ بادی النظر میں تارکین وطن جس ملک میں رہ رہے ہیں وہ اسی ملک کے شہری ہیں تو وہ غیرملکی ہوئے۔

جس پر پی ٹی آئی وکیل نے جواب دیا کہ کوئی بھی شخص بیک وقت پاکستانی اور امریکی شہریت رکھ سکتا ہے۔

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ 'کیا یہ قانون اب بھی رائج ہے؟'

جس پر انور منصور نے جواب دیا کہ 2002 میں پاکستانی سفارت خانے نے یہ نوٹیفکیشن جاری کیا جو اب بھی برقرار ہے، اس سے قبل امریکی شہریت لینے پر پاکستانی شہریت چھوڑنا پڑتی تھی۔

انھوں نے مزید بتایا کہ پاکستان کا کئی ممالک کے ساتھ دوہری شہریت کا معاہدہ ہے۔

مزید پڑھیں: غیرملکی فنڈنگ، اثاثے چھپانے پر عمران خان کی نااہلی کا مطالبہ

پی ٹی آئی وکیل نے دلائل کے دوران عدالت کو بتایا کہ اکاؤنٹس کی تفصیلات الیکشن کمیشن کو فراہم کی جاتی ہیں، جو تمام تفصیلات کا جائزہ لے کے انتخابی نشان الاٹ کرتا ہے۔

انور منصور نے کہا کہ سیاسی جماعت بنانا ہر شہری کا حق ہے اور ہر سیاسی جماعت کے لیے انٹرا پارٹی الیکشن ضروری ہیں جبکہ پارٹی کے اکاؤنٹس کی تفصیلات فراہم کرنا بھی ضروری ہے، دونوں شرائط پوری ہونے ہر ہی انتخابی نشان الاٹ ہوتا ہے اور سیاسی جماعتوں کے آڈٹ اب پرائیویٹ چارٹر اکاؤنٹنٹ کرتے ہیں۔

جسٹس عمر عطا بندیال نے استفسار کہ کیا اسی بنیاد پر آپ نے الیکشن کمیشن کا دائرہ کار چیلنج کیا؟

انور منصور نے جواب دیا کہ اس کے علاوہ بھی کئی نکات ہیں۔

سماعت کے دوران چیف جسٹس ثاقب نثار نے عمران خان کے وکیل انور منصور سے سوال کیا کہ کیوں نہ پارٹی کی ماضی کی فنڈنگ کا معاملہ فیصلے کے لیے الیکشن کمیشن کو بھیج دیا جائے؟

عدالت نے اس مسئلے پر حنیف عباسی کے وکیل سے بھی جواب طلب کیا۔

بعدازاں کیس کی مزید سماعت جمعرات (11مئی) تک کے لیے ملتوی کردی گئی۔

سماعت کے بعد لیگی رہنماؤں نے حسب معمول صحافیوں سے خطاب کیا، اس موقع پر حنیف عباسی نے عمران خان کے بارے میں اپنے خدشات درست ثابت ہونے کا دعوٰی کیا جبکہ دانیال عزیز نے کہا کہ چیف جسٹس کے سوال کا تحریری جواب دیں گے اور ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی کی صورت میں معافی بھی مانگیں گے۔