پاکستان

پاناما کیس: 'سپریم کورٹ جانا عمران خان کی غلطی تھی'

پیپلزپارٹی کاہمیشہ سے یہی مؤقف رہا ہےکہ پاناما کے معاملے کو عدالت نہیں، بلکہ پارلیمنٹ میں حل ہونا چاہیئے،قمرزمان کائرہ

پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے رہنما قمر زمان کائرہ نے پاناما لیکس کے معاملے پر سپریم کورٹ سے رجوع کرنے کو عمران خان کی 'غلطی' قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ ان کی جماعت شروع دن سے کہہ رہی ہے کہ عدالت سے کسی قسم کا انصاف نہیں ملے گا۔

ڈان نیوز کے پروگرام 'دوسرا رُخ' میں گفتگو کرتے ہوئے قمر زمان کائرہ نے کہا کہ پیپلز پارٹی کا ہمیشہ سے یہی مؤقف رہا ہے کہ پاناما کے معاملے کو عدالت میں نہیں بلکہ پارلیمنٹ میں حل ہونا چاہیئے اور اسی لیے پیپلز پارٹی ایوان سے بل کی منظوری کا مطالبہ کرتی رہی۔

انھوں نے کہا کہ 'اب جبکہ فیصلہ آچکا ہے تو تمام چیزیں قوم کے سامنے ہیں، لہذا جو کام عدالت نہیں کر پائی، اب وہی کام مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) کیسے کرے گی'۔

ان کا کہنا تھا کہ 'یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے کہ عالمی کمپنیاں جن کے ذریعے یہ دولت باہر گئی، ان تک جے آئی ٹی کی رسائی کیسے ممکن ہے'۔

قمر زمان کائرہ نے کہا کہ ان کی جماعت کو نہ تو عدالت سے امید تھی اور نہ ہی اب جے آئی ٹی سے کسی قسم کی توقعات ہیں۔

خیال رہے کہ گذشتہ ماہ 20 اپریل کو سپریم کورٹ نے پاناما لیکس کیس کے تاریخی فیصلے میں وزیراعظم نواز شریف کے خلاف مزید تحقیقات کے لیے فیڈرل انویسٹی گیشن ایجنسی (ایف آئی اے) کے اعلیٰ افسر کی سربراہی میں مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) بنانے کا حکم دیا تھا جسے حکمران جماعت مسلم لیگ (ن) نے اپنی 'فتح' قرار دیا، جبکہ تحریک انصاف بھی اس فیصلے کو اپنی جیت تصور کررہی ہے۔

مزید پڑھیں: پاناما کیس: سپریم کورٹ کا جے آئی ٹی بنانے کا فیصلہ

جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے لارجر بینچ نے کورٹ روم نمبر 1 میں پاناما لیکس کے معاملے پر آئینی درخواستوں کا فیصلہ سنایا جسے رواں سال 23 فروری کو محفوظ کیا گیا تھا۔

540 صفحات پر مشتمل اس فیصلے کو جسٹس اعجاز اسلم خان نے تحریر کیا۔

پاناما کیس کے تفصیلی فیصلے کے آغاز میں جسٹس آصف سعید کھوسہ نے 1969 کے مشہور ناول 'دی گاڈ فادر' کا ذکر کرتے ہوئے لکھا، 'ہر بڑی دولت کے پیچھے ایک جرم ہوتا ہے'۔

فیصلے کے مطابق فیڈرل انویسٹی گیشن ایجنسی (ایف آئی اے) کے سینئر ڈائریکٹر کی سربراہی میں 7 دن کے اندر جے آئی ٹی تشکیل دی جائے گی جو 2 ماہ میں اپنی تحقیقات مکمل کرے گی، جبکہ جے آئی ٹی کو ہر 2 ہفتے بعد سپریم کورٹ کے بینچ کے سامنے اپنی رپورٹ پیش کرنے کی بھی ہدایت کی گئی ہے۔

دوسری جانب پاناما لیکس کیس کا فیصلہ آنے کے بعد اپوزیشن کی تین بڑی جماعتوں تحریک انصاف، پیپلز پارٹی اور جماعتِ اسلامی نے وزیراعظم سے استعفے کا مطالبہ کر رکھا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: پاناما لیکس پر جے آئی ٹی تشکیل، ارکان کا اعلان

واضح رہے کہ 5 مئی کو سپریم کورٹ نے پاناما لیکس پر وزیر اعظم نواز شریف اور ان کے بچوں سے تحقیقات کے لیے اعلان کردہ مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) کے ارکان منتخب کرتے ہوئے وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) کے ایڈیشنل ڈائریکٹر جنرل واجد ضیاء کو اس کا سربراہ مقرر کیا۔

جے آئی ٹی کے دیگر ارکان میں ملٹری انٹیلی جنس (ایم آئی) کے بریگیڈیئر کامران خورشید، انٹر سروسز انٹیلی جنس (آئی ایس آئی) کے بریگیڈیئر نعمان سعید، قومی احتساب بیورو (نیب) کے گریڈ 20 کے افسرعرفان نعیم منگی، سیکیورٹیز اینڈ ایکسچینج کمیشن آف پاکستان (ایس ای سی پی) کے بلال رسول اور اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے عامر عزیز شامل ہیں۔