نقطہ نظر

دل و دماغ پر صرف اور صرف آزادی کی آرزو طاری

ریاست ایک فیس بک پوسٹ سے ڈر جاتی ہے، ایک نظم سے خائف ہوتی ہے۔ ایک وڈیو سے بھی اس پر خوف طاری ہو جاتا ہے۔

سڑکوں اور کالجوں پر اپنا غلبہ قائم رکھنے کی جدوجہد میں مصروف، ہندوستان کے زیر انتظام جموں کشمیر کی وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی نے گزشتہ ہفتے وزیر اعظم نریندر مودی سے ملنے گئیں۔ وادی میں ’سکون’ پیدا کرنے کے لیے کچھ تو کرنا ہی تھا۔

نئی دہلی سے لوٹنے پر وزیر اعلیٰ نے سب سے پہلا کام جو کیا وہ 22 سوشل میڈیا ویب سائٹس اور میسنجر اپیلکیشنز پر ایک ماہ کی پابندی لگانا تھا۔ یہ پابندی اس مواد کی گردش کو روکنے کے لیے عائد کی گئی تھی، جو حکومت کے نزدیک ’غیر مصدقہ، قابل اعتراض اور اشتعال انگیز' ہے اور کسی بھی قسم کی تصدیق کے بغیر سوشل نیٹ ورکنگ سائٹس اور انٹرنیٹ میسجنگ سروسز جیسے ذرائع پر فراہم ہونے سے امن عامہ کو خطرہ ہو سکتا ہے اور ریاست میں بے چینی پیدا ہو سکتی ہے'۔

تھری-جی اور فور-جی جیسی تیز رفتار انٹرنیٹ سروس کو بھی منقطع کر دیا گیا، صرف ٹو-جی انٹرنیٹ سروس بحال ہے۔

سوشل میڈیا پر پابندی اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ ہندوستان تشدد کے ذریعے کشمیریوں پر اپنا غلبہ قائم رکھنے کے قابل نہیں۔ برہان وانی کو مارنے، پیلٹ گن کے استعمال سے شہریوں کی کثیر تعداد کو اندھے پن کا شکار بنانے، گرفتاریاں اور پولیس کے تشدد کے باوجود وہ اپنی خواہش کو حقیقی روپ نہیں دے پائے ہیں۔ چونکہ کشمیری اپنے لب سینے سے انکاری ہیں، لہٰذا ہندوستانی ریاست ان کی آوازوں کو مکمل طور پر دبانے کو ہی مسئلے کا واحد حل سمجھتی ہے۔

پہلے تو کشمیر میں قائم ہونے والی حکومتیں لوگوں کے کسی بھی اجتماع پر کریک ڈاؤن کر دیتی تھیں، پھر چاہے وہ اجتماع آزادی پسند جماعتوں کے تنظیمی اجلاس ہوں یا پھر عام شہریوں کی جانب سے منعقد کی جانے والی کسی کتاب کی تقریبِ رونمائی ہو۔ طلبہ سیاست پر بھی پابندی عائد کر دی گئی۔ کسی بھی قسم کے تحریکی عمل کی تھوڑی سی بھی گنجائش باقی نہیں رکھی گئی۔ تاہم، سوشل میڈیا کی آمد نے لوگوں کو ایک نئے ہتھیار سے لیس کر دیا۔

ہندوستان کی حامی سیاسی جماعتوں نے بھی سیاست کو بڑھاوا دینے کے لیے سوشل میڈیا کا استعمال کیا، مگر ان کے مقابلے میں سوشل میڈیا پر لوگوں کی ایک بڑی تعداد موجود ہے جو ہندوستانی ریاست کو کڑی تنقید کا نشانہ بناتی ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ہندوستان جس طرح کشمیر کی سڑکوں پر شکست خوردہ نظر آ رہا ہے، ٹھیک اسی طرح انٹرنیٹ کی دنیا میں بھی بری طرح شکست کا سامنا کر رہا ہے۔ کیوں نہ ہو، چاہے آپ پتھر پھینکیں یا ٹوئیٹ کریں، دونوں صورتوں میں آپ خود پر مسلط قوت کو ہی ڈراتے ہیں۔

ریاست ایک فیس بک پوسٹ سے ڈر جاتی ہے، ایک نظم سے خائف ہوتی ہے۔ ایک وڈیو سے بھی اس پر خوف طاری ہو جاتا ہے۔ دراصل ہندوستان حقیقت سے ہی خوف زدہ ہے۔

سوشل میڈیا کی مدد سے اب ہندوستانی بربریت کو براہ راست پوری دنیا میں نشر کیا جاسکتا ہے۔ مگر جہاں یہ خبریں باہری دنیا کے لیے نئی ہیں، وہاں یہ بربریت اور تشدد کشمیریوں کے لیے ذرا بھی اجنبی نہیں۔ ہندوستانی ریاست کشمیر کے لوگوں سے صرف اور صرف تشدد کی زبان میں بولتی ہے۔

کشمیر میں ہندوستان کی حامی سیاسی جماعتیں بھی صرف قوت کے استعمال سے ہی انتخابات میں فتح یاب ہوتی ہیں۔ ہندوستانی فوج کے اہلکار ایک سے دوسرے گھر جا کر لوگوں کو ووٹ ڈالنے کے لیے دباؤ ڈالتے ہیں۔ ہندوستانی میڈیا بھلے ہی ان ووٹوں کو ’ہندوستان کے حق میں ووٹ’ گنوائے، کہ کشمیری ’اپنی مرضی سے ووٹ ڈالنے باہر نکلے’، مگر ہم سب جانتے ہیں کہ ‘دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت’ یہاں اپنا تسلط قائم رکھنے کے لیے کون سے ہتھکنڈے استعمال کرتی ہے۔

ہندوستانی سیکیورٹی اسٹیبلشمنٹ، ‘کشمیر ماہرین’ سے لیس ابھرتے تھنک ٹینکس، اور ہندوسانی صحافیوں کا ایک میزبان اس بے وقوفانہ خام خیالی کا شکار ہے کہ اس پابندی کے ساتھ ہندوستان کشمیر میں شورش کو ٹھنڈا کر پائے گا۔ حمایتی یہ بھی دلیل دیتے ہیں کہ سوشل میڈیا پر پابندی سے حکومت کو تشدد اور پتھراؤ روکنے میں مدد فراہم ہوگی۔

انہیں یہ سمجھ نہیں آتا ہے کہ وہ اپنے ایسے رویوں کی وجہ سے ہی لوگوں کے ذہنوں اور دلوں کو جیت نہیں پائے ہیں۔ افسوس کہ دل جیتنے کی بات تو خام خیالی ٹھہری، مگر حقیقت تو یہ ہے کہ کشمیریوں کے دل و دماغ پر صرف اور صرف آزادی کی آرزؤں کے سوا اور کچھ نہیں۔ اب جب میں اس تحریر کو قلمبند کر رہا ہوں، سری نگر سے قریب 170 کلومیٹر دور چوکیبال، کپواڑہ میں پتھراؤ شروع ہو چکا ہے۔


انگلش میں پڑھیں۔

بشارت علی

بشارت علی جامعہ ملیہ اسلامیہ نئی دہلی کی اکیڈمی برائے انٹرنیشنل اسٹڈیز میں ریسرچ اسکالر ہیں۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔