پاکستان

پاناما کیس فیصلے پر عملدرآمد کیلئے خصوصی بینچ تشکیل

تین رکنی بینچ کی سربراہی جسٹس اعجاز افضل کریں گے، جبکہ دیگر ججز میں جسٹس شیخ عظمت سعید اور جسٹس اعجاز الاحسن شامل ہیں۔

اسلام آباد: سپریم کورٹ آف پاکستان نے پاناما کیس کے فیصلے پر عملدرآمد کے لیے خصوصی بینچ تشکیل دے دیا۔

تین رکنی بینچ کی سربراہی جسٹس اعجاز افضل کریں گے، جبکہ دیگر ججز میں جسٹس شیخ عظمت سعید اور جسٹس اعجاز الاحسن شامل ہیں۔

خصوصی بینچ پاناما کیس کے فیصلے پر عملدرآمد یعنی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) کی تشکیل اور اس کی کارکردگی کا جائزہ لینے کے لیے بنایا گیا ہے، جو بدھ کے روز دوپہر ڈیڑھ بجے سماعت کرے گا۔

قبل ازیں سپریم کورٹ نے پاناما لیکس کے معاملے پر مشترکہ تحقیقاتی ٹیم کے لیے ایک اسپیشل سیکشن قائم کیا تھا۔

ذرائع کے مطابق ایڈیشنل رجسٹرار محمد علی کو کوآرڈینیٹر مقرر کیا گیا ہے جبکہ ڈپٹی رجسٹرار اور اسسٹنٹ رجسٹرار جے آئی ٹی کوآرڈینیٹر کی معاونت کریں گے۔

ذرائع کا یہ بھی کہنا تھا کہ مستقبل میں جے آئی ٹی اور بینچ کے درمیان رابطہ کوآرڈینیٹر کے ذریعے ہوگا۔

ذرائع کے مطابق جے آئی ٹی اپنی رپورٹ ہر 15 روز کے بعد کوآرڈینیٹر ایڈیشنل رجسٹرار کو جمع کرائے گی جبکہ بینچ کی جانب سے دیئے جانے والے احکامات بھی کوآرڈینیٹر کے ذریعے جے آئی ٹی کو موصول ہوں گے۔

مزید پڑھیں: پاناما کیس: سپریم کورٹ کا جے آئی ٹی بنانے کا فیصلہ

یاد رہے کہ گذشتہ ماہ 20 اپریل کو سپریم کورٹ نے پاناما لیکس کیس کے تاریخی فیصلے میں وزیراعظم نواز شریف کے خلاف مزید تحقیقات کے لیے فیڈرل انویسٹی گیشن ایجنسی (ایف آئی اے) کے اعلیٰ افسر کی سربراہی میں مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) بنانے کا حکم دیا تھا۔

جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے لارجر بینچ نے کورٹ روم نمبر 1 میں پاناما لیکس کے معاملے پر آئینی درخواستوں کا فیصلہ سنایا جسے رواں سال 23 فروری کو محفوظ کیا گیا تھا۔

540 صفحات پر مشتمل اس فیصلے کو جسٹس اعجاز اسلم خان نے تحریر کیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: پاناما لیکس کیس: جے آئی ٹی کی عالمی اداروں تک رسائی نہیں

فیصلے میں کہا گیا تھا کہ فیڈرل انویسٹی گیشن ایجنسی (ایف آئی اے) کے سینئر ڈائریکٹر کی سربراہی میں 7 دن کے اندر جے آئی ٹی تشکیل دی جائے گی جو 2 ماہ میں اپنی تحقیقات مکمل کرے گی، جبکہ جے آئی ٹی کو ہر 2 ہفتے بعد سپریم کورٹ کے بینچ کے سامنے اپنی رپورٹ پیش کرنے کی بھی ہدایت کی گئی۔

لارجر بینچ نے چیف جسٹس سپریم کورٹ سے اس فیصلے پر عملدرآمد کروانے کے لیے خصوصی بینچ بنانے کی استدعا کی تھی، تاکہ پاناما لیکس کیس میں لگائے گئے الزامات کی تحقیقات بند گلی میں نہ رہ جائیں۔

پاناما لیکس کے معاملے نے ملکی سیاست میں اُس وقت ہلچل مچائی تھی، جب گذشتہ سال اپریل میں بیرون ملک ٹیکس کے حوالے سے کام کرنے والی پاناما کی مشہور لا فرم موزیک فانسیکا کی افشا ہونے والی انتہائی خفیہ دستاویزات سے پاکستان سمیت دنیا کی کئی طاقت ور اور سیاسی شخصیات کے 'آف شور' مالی معاملات عیاں ہو گئے تھے۔

مزید پڑھیں: پاناما کیس فیصلہ: مسلم لیگ بے چینی کا شکار

پاناما پیپرز کی جانب سے انٹرنیشنل کنسورشیم آف انویسٹی گیٹو جرنلسٹس (آئی سی آئی جے) کی ویب سائٹ پر جاری ہونے والا یہ ڈیٹا ایک کروڑ 15 لاکھ دستاویزات پر مشتمل ہے، جس میں روس کے صدر ولادی میر پوٹن، سعودی عرب کے فرمانروا شاہ سلمان، آئس لینڈ کے وزیر اعظم، شامی صدر اور پاکستان کے وزیراعظم نواز شریف سمیت درجنوں حکمرانوں کے نام شامل تھے۔

ویب سائٹ پر موجود ڈیٹا کے مطابق، پاکستانی وزیر اعظم نواز شریف کے بچوں مریم، حسن اور حسین ’کئی کمپنیوں کے مالکان ہیں یا پھر ان کی رقوم کی منتقلی کے مجاز تھے‘۔

موزیک فانسیکا کے نجی ڈیٹا بیس سے 2.6 ٹیرا بائٹس پر مشتمل عام ہونے والی ان معلومات کو امریکی سفارتی مراسلوں سے بھی بڑا قرار دیا جا رہا ہے۔