شیراکبر کا 'رائفل' سے 'ریڈیو سیٹ' تک کا سفر
70 سالہ شیر اکبر پاکستان کے قبائلی علاقے فاٹا کی مہمند ایجنسی کے یکہ غنڈ بازار میں واقع ایک چھوٹی سی دکان میں ریڈیو سیٹ کی مرمت میں مصروف ہیں۔
اُن کی چھوٹی سی دکان میں اگر ایک طرف ریڈیو سیٹس کے انبار لگے ہیں تو دوسری جانب کچھ پُرانی بندوقیں بھی آویزاں ہیں۔
شیر اکبر بتاتے ہیں، وہ دسویں جماعت میں تھے، جب آج سے 50 سال قبل انھوں نے اپنے والد کے ساتھ اسلحے کا کاروبار شروع کیا، وہ اسکول سے واپسی پر والد کے ساتھ اسلحہ سازی کا کام سیکھتے تھے۔
انھوں نے بتایا، 'اس کاروبار میں ہم اُس وقت ہزاروں روپے کماتے تھے جن کی وجہ سے ہمارا شمار علاقے کے سفید پوشوں میں ہوتا تھا'۔
شیر اکبر نے مزید بتایا، 'جب سوویت یونین نے 80 کی دہائی میں افغانستان میں مداخلت کی تو دنیا بھر کے جنگجو ہماری دکان پر اسلحہ خریدنے کے لیے آتے تھے، میں نے اُس وقت ایف اے کیا ہوا تھا جس کی وجہ سے میں کچھ حد تک انگریزی زبان بول سکتا تھا، میں چیچنیا، سعودی عرب، سوڈان، لیبیا اور دوسرے ممالک سے آنے والے جنگجوؤں کے ساتھ انگریزی زبان میں بات کیا کرتا تھا، جس کی وجہ سے ہماری دکان پر ہر وقت رش لگا رہتا تھا'۔