پاکستان

اے این پی کی وزیراعظم کے استعفے کی مخالفت

پی ٹی آئی کی جانب سے وزیراعظم کے استعفے کی خاطرشروع کی گئی 'گو نواز گو' تحریک کا حصہ نہیں بنیں گے، اسفند یار ولی

عوامی نیشنل پارٹی (اے این پی) کے صدر اسفند یار ولی خان کا کہنا ہے کہ ان کی جماعت وزیراعظم نواز شریف کے استعفے کے مطالبے کا حصہ نہیں بنے گی اور پاناما پیپر کیس کے حوالے سے سپریم کورٹ کے تفتیشی حکم کا انتظار کرے گی۔

اسفند یار ولی خان نے کسی کا نام لیے بغیر اپوزیشن جماعتوں پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ 'بڑا ہلا گلا ہے اور مطالبہ کیا جارہا ہے کہ وزیراعظم کو استعفیٰ دینا چاہیے، عدالت کے فیصلے کو تسلیم کرنے یا کرنے کے حوالے سے یکسوئی نہیں ہے، سپریم کورٹ کے احکامات کے مطابق تفتیش کا انتظار کیوں نہیں کیا جاتا'۔

واضح رہے کہ حکمراں جماعت مسلم لیگ نواز کی حریف پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی)، مرکزی اپوزیشن جماعت پاکستان پیپلز پارٹی اور دیگر جماعتوں کی جانب سے عدالت کے فیصلے کے پیش نظر وزیراعظم سے مستعفی ہونے کا مطالبہ کیا جارہا ہے۔

اسفند یار ولی نے اپنی پارٹی کے رہنماؤں سے صلح مشورے کے بعد پریس کانفرنس میں سپریم کورٹ کی جانب سے وزیراعظم اور ان کے بچوں کو پاناما پیپرز لیکس کے حوالے سے تفتیش کے لیے جوائنٹ انوسٹی گیشن ٹیم (جے آئی ٹی) کی تشکیل کے حکم کے بعد پیدا ہونے والی سیاسی صورت حال پر اپنے لائحہ عمل سےآگاہ کیا۔

ان کا کہنا تھا کہ 'اے این پی کسی بھی ایسی تحریک کا حصہ نہیں بنے گی جو وزیراعظم کے استعفے کا مطالبہ کرتی ہے، ہم سپریم کورٹ کے ساتھ کھڑے ہیں اور اس کی جانب سے تفتیش کے لیے دیے گئے احکامات کا انتظار کریں گے'۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ ان کی پارٹی، پی ٹی آئی کی جانب سے وزیراعظم کو استعفے کے لیے دباؤ بڑھانے کی خاطر شروع کی گئی 'گو نواز گو' تحریک کا حصہ نہیں بنے گی۔

مزید پڑھیں:نواز شریف فوری طور پر استعفیٰ دے دیں: عمران خان

پی ٹی آئی کی جانب سے سپریم کورٹ کے فیصلے پر ابتدائی طور پر آنے والے ردعمل کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ 'ایک طرف وہ خوشیاں منارہے ہیں اور مٹھائی تقسیم کررہے ہیں اور دوسری جانب وہی پارٹی سپریم کورٹ کے فیصلے پر تنقید کررہی ہے، کم از کم انھیں پہلے اس کو تو قبول کرنا چاہیئے'۔

انھوں نے اے این پی کے اجلاس میں ہونے والے دوسرے اہم مسئلہ پر بھی بات کی ۔

ان کا کہنا تھا کہ اے این پی نے مطالبہ کیا تھا کہ سپریم کورٹ مشعال خان کے قاتلوں کی گرفتاری کو یقینی بنائے جنھیں 13 اپریل کو مردان کی عبدالولی خان یونیورسٹی میں گستاخی کے الزام میں تشدد کا نشانہ بنا کر قتل کردیا گیا تھا۔

اے این پی نے گزشتہ حکومت میں یونیورسٹی کو پارٹی کے بانی کے نام سے منسوب کرنے کے بعد قائم کیا تھا۔

اسفندریار ولی نے کہا کہ 'ہمیں خوشی ہے کہ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس خود اس قتل کی تفتیش پر نظر رکھنا چاہتے ہیں لیکن ہم اب بھی مشعال خان کے قاتلوں کی گرفتاری اور سزا کا مطالبہ کرتے ہیں'۔

ان کا کہنا تھا کہ انھوں نے پہلے بھی کہا تھا کہ اگر اس بہیمانہ قتل میں ان کا اپنا بیٹا بھی ملوث ہوتا تو اس کو بھی نہیں چھوڑنا چاہیئے بلکہ سرعام پھانسی دینی چاہیئے تاکہ کوئی اور اس طرح کا جرم دوبارہ کرنے کی جرات نہ کرے۔

کالعدم تحریک طالبان کے سابق ترجمان احسان اللہ احسان کے اعترافی بیان کے حوالے سے پوچھے گئے ایک سوال پر انھوں نے کہا کہ جنھوں نے سیکڑوں معصوموں کا قتل کیا، ان کو دی جانے والی سزا پر کوئی تصور نہیں کرسکتا خاص کر پختون جن کو انصاف چاہیئے۔

یہ بھی پڑھیں: ٹی ٹی پی کوبھارت،افغانستان استعمال کر رہے ہیں:احسان اللہ احسان

اے این پی کے صدر کا کہنا تھا کہ 'ان کے جرائم کے مطابق ہر سزا کم نظر آتی ہے کیونکہ انھوں نے کئی لوگوں کو قتل کیا ہے'۔

اے این پی کے سیکریٹری جنرل میاں افتخار حسین، غلام احمد بلور، بشریٰ گوہر اور امیر حیدر ہوتی سمیت دیگر رہنما بھی پریس کانفرنس کے دوران موجود تھے۔


یہ رپورٹ 27 اپریل 2017 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی