'جے آئی ٹی کا فیصلہ خلاف آیا، تو وزیراعظم مستعفیٰ ہوجائیں گے'
وزیراعظم نواز شریف کے ترجمان مصدق ملک نے کہا ہے کہ پاناما لیکس کے فیصلے میں سپریم کورٹ کے ججز نے واضح کردیا کہ ابھی کیس میں مزید تفتیش کی گنجائش موجود ہے، لہذا مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) ان ثبوتوں کی تصدیق کرے گی جو عدالت میں پیش کیے گئے۔
ڈان نیوز کے پروگرام 'نیوز آئی' میں گفتگو کرتے ہوئے مصدق ملک نے کہا کہ عدالت نے جو فیصلہ دیا، وزیراعظم بھی شروع دن سے یہی بات کررہے تھے اور اب جبکہ پاناما لیکس کا معاملے جے آئی ٹی کے سامنے ہے تو ہم نے تمام دستاویزات جمع کروادی ہیں تاکہ اصل حقائق سامنے آسکیں۔
انھوں نے کہا کہ 'سپریم کورٹ ٹرائل کورٹ نہیں ہے، اسی لیے عدالت نے 60 روز کی مہلت دی ہے جس کے دوران مشترکہ تحقیقاتی ٹیم ہر پہلو سے جائزہ لے گی'۔
ان کا کہنا تھا کہ 'اگر جے آئی ٹی نے ہمارے خلاف فیصلہ دیا تو وزیراعظم خود مستعفیٰ ہوجائیں گے، لیکن اگر ہمارے حق میں فیصلہ ہوا تو وہ اپنے عہدے پر قائم رہیں گے'۔
مزید پڑھیں: پاناما کیس: سپریم کورٹ کا جے آئی ٹی بنانے کا فیصلہ
پروگرام کے دوران میزبان مہر عباسی کی جانب سے پاناما لیکس کیس کے فیصلے میں جسٹس عظمت سعید شیخ کے ان ریمارکس کے حوالے سے سوال کیا گیا، جن میں ان کا کہنا تھا کہ '3 مرتبہ منتخب وزیراعظم اب مزید اپنی خاندان کی دولت کے ذرائع بتانے سے کنی نہیں کترا سکتے اور کوئی غیر نتیجہ خیز خالات قابل قبول نہیں ہیں'۔
جس کے جواب میں مصدق ملک نے کہا کہ 'وہ اس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ ان کی جماعت اس معاملے میں عدالت کو قائل نہ کرسکی اور جو ریمارکس جسٹس عظمت سعید نے دیئے وہ ان سے 100 فیصد اتفاق کرتے ہیں، اسی لیے عدالت نے معاملے کو جے آئی ٹی کے سپرد کیا تاکہ حقیقت سامنے آئے'۔
پروگرام میں موجود پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کی رہنما شازیہ مری نے کہا کہ 'پاناما کیس کے فیصلے میں ججز کے ریمارکس بہت ہی واضح ہیں اور اگر 2 ججز نے وزیراعظم نواز شریف کو مجرم قرار دیا تو باقی 3 بھی انہیں ملزم تو تصور کررہے ہیں، لہذا اس صورتحال میں مسلم لیگ (ن) کا جشن سمجھ سے بالاتر ہے'۔
ان کا کہنا تھا کہ 'کچھ لوگ باتیں کررہے ہیں کہ ن لیگ کو کلین چٹ مل گئی، لیکن فیصلے سے تو صاف لگتا ہے کہ یہ ابھی اس کیس سے بری نہیں ہوئے'۔
شازیہ مری نے کہا کہ جس طرح کا فیصلہ آیا ہے اس میں جے آئی ٹی کی کوئی ضرورت نہیں، کیونکہ اس کے بعد وزیراعظم اخلاقی طور پر نااہل ہوچکےہیں، لہذا اس سے بڑا مذاق اور کوئی نہیں کہ ملک کا وزیراعظم 18 گریڈ کے افسر کے سامنے پیش ہوگا۔
یہ بھی پڑھیں: پارلیمنٹ میں وزیراعظم سےاستعفے کامطالبہ،پی ٹی آئی کاجلسے کااعلان
خیال رہے کہ رواں ماہ 20 اپریل کو سپریم کورٹ نے پاناما لیکس کیس کے تاریخی فیصلے میں وزیراعظم نواز شریف کے خلاف مزید تحقیقات کے لیے فیڈرل انویسٹی گیشن ایجنسی (ایف آئی اے) کے اعلیٰ افسر کی سربراہی میں مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) بنانے کا حکم دیا جسے حکمران جماعت مسلم لیگ (ن) نے اپنی 'فتح' قرار دیا، جبکہ تحریک انصاف بھی اس فیصلے کو اپنی جیت تصور کررہی ہے۔
جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے لارجر بینچ نے کورٹ روم نمبر 1 میں پاناما لیکس کے معاملے پر آئینی درخواستوں کا فیصلہ سنایا جسے رواں سال 23 فروری کو محفوظ کیا گیا تھا۔
540 صفحات پر مشتمل اس فیصلے کو جسٹس اعجاز اسلم خان نے تحریر کیا۔
پاناما کیس کے تفصیلی فیصلے کے آغاز میں جسٹس آصف سعید کھوسہ نے 1969 کے مشہور ناول 'دی گاڈ فادر' کا ذکر کرتے ہوئے لکھا، 'ہر بڑی دولت کے پیچھے ایک جرم ہوتا ہے'۔
فیصلے کے مطابق فیڈرل انویسٹی گیشن ایجنسی (ایف آئی اے) کے سینئر ڈائریکٹر کی سربراہی میں 7 دن کے اندر جے آئی ٹی تشکیل دی جائے گی جو 2 ماہ میں اپنی تحقیقات مکمل کرے گی، جبکہ جے آئی ٹی کو ہر 2 ہفتے بعد سپریم کورٹ کے بینچ کے سامنے اپنی رپورٹ پیش کرنے کی بھی ہدایت کی گئی ہے۔
دوسری جانب پاناما لیکس کیس کا فیصلہ آنے کے بعد اپوزیشن کی تین بڑی جماعتوں تحریک انصاف، پیپلز پارٹی اور جماعتِ اسلامی نے وزیراعظم سے استعفے کا مطالبہ کر رکھا ہے، جبکہ پی ٹی آئی چیئرمین عمران خان 28 اپریل کو اسلام آباد میں جلسے کا اعلان بھی کرچکے ہیں۔