بلوچستان میں شمسی بجلی کیلئے ورلڈ بینک سے مذاکرات
وفاقی وزیر خزانہ اسحٰق ڈار کا کہنا ہے کہ انھوں نے بلوچستان کو شمسی توانائی سے روشن کرنے کے لیے ورلڈ بینک سے ایک منصوبے پر گفتگو کی ہے اور اس حوالے سے بینک کا جواب بھی مثبت ہے۔
امریکا میں پاکستانی سفارت خانے کے معاشی فورم سے خطاب کرتے ہوئے اسحٰق ڈار کا کہنا تھا کہ چینی کمپنیاں پاک-چین اقتصادی راہداری میں سرمایہ کاری کررہی ہیں جنمھیں ٹیکس میں بڑی مراعات ہوں گی لیکن انھوں نے دعویٰ کیا کہ ‘اس مخصوص فیصلے’ سے ملک کی معیشت کو نقصان نہیں ہوگا۔
اسحٰق ڈار کا کہنا تھا کہ ’میں نے ورلڈ بینک کے صدر جم یانگ کم سے پورے بلوچستان کو روشن کرنے کے منصوبے پر بات چیت کی اور ان کا جواب مثبت تھا’۔
انھوں نے بتایا ‘میں نے انھیں صوبے کے دورے کی دعوت دی تھی جس کو انھوں نے قبول کیا’۔
وزیرخزانہ کا کہنا تھا کہ ‘میں نے انھیں یہ بھی کہا کہ جب یہ تیار ہوگا تو ہم اس سلسلے کے پہلے منصوبے کا افتتاح ان سے کروانا چاہیں گے اور میرا خیال ہے کہ چیزیں مثبت ہوں گی’۔
یہ بھی پڑھیں: چینی سرمایہ کاروں کو نمایاں ٹیکس رعایتیں حاصل
اسحٰق ڈار نے کثیر تعداد میں موجود پاکستان نژاد امریکی شرکاء کو بتایا کہ 'جب 1999 میں ملک میں فوجی مداخلت ہوئی تو پاکستان مسلم لیگ نواز کی حکومت ‘گوادر کو دبئی میں تبدیل’ کرنے کے قریب تھی لیکن پورے منصوبے کو پٹڑی سے اتار دیا گیا’۔
ان کا کہنا تھا کہ ‘ہم کراچی سے گوادر تک متوازی مشرق وسطیٰ تعمیر کرنا چاہتے تھے لیکن مداخلت نے ہمیں ایسا کرنے سے روکا’۔
وفاقی وزیر نے وہاں پر موجود بلوچ شرکاء سے اتفاق کیا کہ اگر بلوچوں کو ان کے حقوق دیئے جاتے تو صوبہ اپنی صلاحیتوں کو پا لیتا اور وہاں موجود شورش کا بھی کوئی وجود نہ ہوتا۔
مزید پڑھیں:ورلڈ بینک پشاور-کابل ہائی وے بنانے میں پاکستان کی مدد کرے گا
انھوں نے کہا کہ حکومت ملک کے دوسرے حصوں کی طرح بلوچستان کی معاشی خومختاری کے لیے مختلف منصوبوں پر کام کررہی ہے، ساتھ ہی انھوں نے امید ظاہر کی کہ سی پیک صوبے کے لیے نیا آغاز ہوگا۔
ایک سوال کے جواب میں انھوں نے دعویٰ کیا کہ چینی کمپنیوں کو ٹیکس میں چھوٹ دینے کے خاص فیصلے سے قبل حکومت نے ‘لاگت اور منافع’ کا جائزہ لیا تھا۔
انھوں نے کہا کہ ‘ہم اس طرح کی منفی باتیں سن رہے ہیں لیکن یہ دوطرفہ انتظامات ہیں’۔
ان کا کہنا تھا کہ ‘یورپی یونین نے اپنے اراکین کے لیے ٹیرف میں کمی کررکھی ہے، امریکا اپنے پڑوسیوں کو اسی طرح کی چھوٹ دیتا ہے اور اگر ہم اسی طرح کی آسانیاں چین کو دے رہے ہیں تو اس میں کیا برائی ہے’۔
انھوں نے کہا کہ 'مفت کا کھانا نہیں ملتا، وہ 56 ارب ڈالر سرمایہ کاری کررہے ہیں جس کے جواب میں ہم نے کچھ چھوٹ کی پیش کش کی ہے'۔
وفاقی وزیر نے کہا کہ چین عظیم دوست ہے اور منفی باتوں کا مقصد 'سی پیک کے منصوبے کو کمتر' ثابت کرنا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ‘سی پیک نہ صرف دو طرفہ منصوبہ ہے بلکہ بنیادی طور پر پورے خطے کے لیے ایک وژن ہے اور جلد ہی تمام ہمسایہ ممالک تک پھیلا دیا جائے گا،۔
اسحٰق ڈار نے چینی کمپنیوں کو سالانہ 150 ارب روپے کی چھوٹ دینے کے حوالے سے ایک سوال پر کہا کہ ‘یہ چھوٹ چینی کمپنیوں کو سی پیک میں 56 ارب ڈالر کی سرمایہ پر دی جارہی ہے’۔
ان کا کہنا تھا کہ ‘سی پیک کے حوالے سے غلط فہمیاں پائی جاتی ہیں، چین پیسہ حکومت کو نہیں دے رہا اور اس کے مالی فوائد نجی شعبوں، توانائی اور انفراسٹرکچر کے لیے مہیا کیے جارہے ہیں'۔
انتخابات کے قریب آتے ہی مقبول پالیسیاں بنانے سے ملک کی معیشت کو نقصان پہنچنے کے حوالے سے ورلڈ بینک کے خدشات پر ان کا کہنا تھا کہ حکومت کا ایسا کچھ کرنے کا ارادہ نہیں ہے۔
انھوں نے کہا کہ ‘ہم نے گزشتہ چند برسوں کے دوران جو حاصل کیا، اس کو صرف انتخابات میں فتح پر ضائع کرنے پر یقین نہیں رکھتے’۔
اس بات کی وضاحت کرتے ہوئے ان کا مزید کہنا تھا کہ 'یہ حکومت کی پالیسی نہیں ہے، میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ صرف مقبولیت کے لیے ہم آنے والے بجٹ میں ایسے اقدامات نہیں کریں گے'۔
اسحٰق ڈار کے مطابق ‘لوڈ شیڈنگ 2018 تک تاریخ کا حصہ بن جائے گی، جس کے لیے حکومت منصوبوں کو تیزی سے مکمل کررہی ہے۔
یہ بھی پڑھیں: وزیراعظم کی حکام کو لوڈ شیڈنگ پر تنبیہ
ورلڈ بینک کی جانب سے مضبوط روپے سے پاکستان کی ترقی پر خدشات کے حوالے سے ایک اور سوال پر انھوں نے کہا کہ یہ اچھی معاشی پالیسی کی ایک علامت ہے جبکہ حکومت اور اسٹیٹ بینک اس میں تبدیلی کے لیے کچھ نہیں کرسکتے۔
وزیرخزانہ نے کہا کہ پاکستان اوپن مارکیٹ پالیسی کو جاری رکھے گا۔
ان کا کہنا تھا کہ ’سرمایہ کار خوش ہیں کہ ہمارا ملک مستحکم ہے، مشرق وسطیٰ کی کرنسی کئی دہائیوں سے مستحکم ہے اور ان کی معیشتوں پر کوئی برعکس اثر نہیں پڑا تو پاکستان کی مستحکم کرنسی اس کی بڑھوتری کو نقصان کیوں پہنچائے گی’۔
اسحٰق ڈار نے اعتراف کیا کہ روپے کی قدر میں استحکام اور تیل کی بڑھتی ہوئی قیمتوں کے باعث پاکستان کی برآمدات میں کمی آئی ہے لیکن حکومت اس کو درست کرنے کے لیے مراعات کی پیش کش کر رہی ہے۔
یہ رپورٹ 26 اپریل 2017 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی