پاکستان

ورلڈ بینک پشاور-کابل ہائی وے بنانے میں پاکستان کی مدد کرے گا

ہائی وے نہ صرف پشاور کوکابل سےجوڑے گی بلکہ یہ جنوبی اور وسطی ایشیا کے درمیان ایک اہم تجارتی رابطےکی حیثیت بھی رکھتی ہے۔

واشنگٹن: وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے ورلڈ بینک پر زور دیا ہے کہ پشاور-کابل ہائی وے اور دیگر اہم منصوبوں پر سرمایہ کاری کی جائے، جس سے خطے میں بین العلاقائی تجارت کو فروغ ملے گا۔

کابل-پشاور ہائی وے نہ صرف پشاور کو کابل سے جوڑے گی بلکہ یہ جنوبی ایشیا اور وسطی ایشیا کے درمیان ایک اہم تجارتی رابطے کی حیثیت بھی رکھتی ہے۔

ان خیالات کا اظہار وفاقی وزیر نے گذشتہ ہفتے واشنگٹن میں ورلڈ بینک کی جانب سے ہونے والے ایک اجلاس کے دوران کیا۔

امریکا میں موجود پاکستانی سفارتخانے نے اس اجلاس کی تفصیلات جاری کیں، جن کے مطابق ورلڈ بینک پشاور-کابل ہائی وے منصوبے میں سرمایہ کاری کے لیے رضا مند ہوگیا ہے۔

تفصیلات کے مطابق اسحاق ڈار نے ورلڈ بینک سے درخواست کی کہ پاکستان کے ساتھ اقتصادی روابط کو مزید مستحکم بنانے کے لیے دیا میر بھاشا ڈیم منصوبے میں سرمایہ کاری کرنے پر بھی غور کیا جائے۔

مزید پڑھیں: ریکوڈک منصوبہ کیس: 'عالمی بینک کا فیصلہ حتمی نہیں'

ورلڈ بینک اہلکاروں سے گفتگو کے دوران وفاقی وزیر نے حکومت پاکستان کی جانب سے معاشی نظام میں متعارف کرائی جانے والی تبدیلیوں کو بھی نمایاں کیا جن سے ملک میں اقتصادی ترقی کی حوصلہ افزائی ہوگی۔

انہوں نے اس بات کی طرف بھی اشارہ کیا کہ یہ تبدیلیاں پاکستان کی اسٹاک مارکیٹ کو دنیا کی پانچ سر فہرست اسٹاک مارکیٹوں میں سے ایک بننے کے لیے فعال کریں گی۔

پاک-چین اقتصادی راہداری (سی پیک) کا تذکرہ کرتے ہوئے اسحاق ڈار کا کہنا تھا کہ حکومت سی پیک میں نجی سیکٹر کے کردار کو مستحکم بنانے کی کوششیں کر رہی ہے اور اس مقصد کے حصول کے لیے نجی سرمایہ کاروں کو اپنی مرضی کے منصوبوں کا انتخاب کرنے کا موقع فراہم کر رہی ہے۔

وفاقی وزیر کا مزید کہنا تھا کہ سی پیک کی توجہ اس وقت توانائی کے شعبوں پر مرکوز ہے اور اب تک توانائی کے شعبے میں 34 ارب ڈالرز مالیت کے منصوبے شروع کیے جا چکے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: پاکستان کا شرح نمو 5.4 فیصد تک پہنچ جائے گا:عالمی بینک

انھوں نے بتایا کہ تقریباً 25 ہزار میگا واٹ کے منصوبے مختلف مراحل میں ہیں، جن میں سے 10 ہزار میگا واٹ کے منصوبے مارچ 2018 تک سسٹم میں شامل کر دیئے جائیں گے۔

اسحاق ڈار نے دعویٰ کیا کہ ان اقدامات کی وجہ سے صنعتی شعبے میں پچھلے تین سال سے لوڈ شیڈنگ نہیں کی جارہی، انہوں نے اس امید کا بھی اظہار بھی کیا کہ 2018 تک ملک سے لوڈ شیڈنگ کا مکمل خاتمہ کر دیا جائے گا۔

اسحاق ڈار نے ورلڈ بینک کے اہلکاروں سے بات چیت کرتے ہوئے حکومت کی جانب سے تونائی کے شعبوں میں کیے جانے والے ماسٹر پلان کے بارے میں بھی بتایا، جن کے بارے میں ان کا دعویٰ ہے کہ یہ منصوبے پاکستانی معشت کو مستقبل میں آنے والے مطالبات کا خیال رکھتے ہوئے بہت اہم آغاز فراہم کریں گے۔

ان کا کہنا تھا کہ حکومت جامع اور پائیدار ترقی کے لیے ملک کے غریب طبقات کے لیے مائیکرو فنانس سہولیات کو بڑھا رہی ہے جس میں صف اول بینظیر انکم سپورٹ پروگرام ہے جس کو تین گناہ تک وسیع کیا جارہا ہے جس کے بعد اس پروگرام سے مستفید ہونے والوں کی تعداد 5.4 ملین (54 لاکھ) تک پہنچ جائے گی۔

میزید پڑھیں: نئی مانیٹری پالیسی میں شرح سود برقرار،اسٹیٹ بینک

اسحاق ڈار نے ورلڈ بینک کو بتایا کہ حکومت سرمایہ کاروں کی حوصلہ افزائی کے لیے پہلے ہی 24 نئے قانون پاس کر چکی ہے اور مزید 10 نئے قوانین پر کام جاری ہے۔

ورلڈ بینک نے پاکستان کی خوش آئند معاشی ترقی اور حال ہی میں ملک کی نظر ثانی شدہ شرح ترقی پر اتفاق کا اظہار کیا۔

تاہم ورلڈ بینک نے پاکستان میں ہونے والے الیکشن کے حوالے سے متنبہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ الیکشن کی وجہ سے حکومت عوام دوست پالیسی کا انتخاب کرنے پر مجبور ہو جائے گی جس سے پاکستانی معیشت کو نقصان پہنچے گا۔

ورلڈ بینک نے پاکستان کے لیے متوقع مثبت نقطہ نظر کے پیش نظر مختلف خطرات سے بھی آگاہ کیا، ان میں انتہائی ضروری ساختی اصلاحات میں سست پیش رفت، امریکی اقتصادی پالیسی میں غیر یقینی، مضبوط روپیہ اور طویل عالمی اقتصادی کمزوریاں شامل ہیں۔

واضح رہے کہ رواں سال کے آغاز میں عالمی مالیاتی ادارے (آئی ایم ایف) اور ایشیائی ترقیاتی بینک نے بھی اسی قسم کے ملے جلے خدشات کا اظہار کیا تھا۔

ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ ساختی اصلاحات میں سست روی سے ترقی کے امکانات کمزور ہو سکتے ہیں۔

مزید پڑھیں: سندھ طاس معاہدہ : پاکستان نے معاملہ ورلڈ بینک میں اٹھادیا

ورلڈ بینک نے نشاندہی کی کہ پاکستان ترسیلات زر میں نمایاں کمی کا شکار ہو سکتا ہے، خاص طور پر تیل درآمد کرنے والے ملکوں سے جن کا پاکستان کے ساتھ ترسیلات زر میں تقریبا دو تہائی حصہ ہے۔

ورلڈ بینک نے پاکستانی حکومت کو مشورہ دیا کہ معیشت کے عدم توازن کو ختم کرنے کے لیے موثر اقدامات کیے جائیں اور پائیدار ترقی کو ممکن بنانے کے لیے ساختی اصلاحات کو لاگو کیا جائے۔

واشنگٹن میں وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار کی اپنے افغان ہم منصب اکلیل احمد حکیمی سے بھی ملاقات ہوئی، جس میں دونوں وزرا نے دو طرفہ اقتصادی اور تجارتی تعلقات کو بڑھانے کے لیے پالیسی کے تعاون پر زور دیا۔

ملاقات کے بعد جاری ہونے والے ایک بیان کے مطابق دونوں رہنما پاکستان اور افغانستان کے مشترکہ اقتصادی کمیشن کے اجلاس کو جلد از جلد بلانے پر رضامند ہوگئے۔