'میرے تو مالی اور چوکیدار کے پاس بھی واٹس ایپ ہے'
سر میں شدید درد ہے، میں اپنی زندگی سے بالکل ناامید ہوچکی ہوں، آج پیزا آرڈر کیا ہے، حکومت چور ہے سارا ملک کھا گئی، چیک اِن ود ہبی ایٹ دو دریا، شکر الحمداللہ آج نماز فجر ادا ہو گئی، کافر کافر، ہیپی مدرز ڈے، فیلنگ الون ود 50 ادرز۔
ایسی پوسٹس روزانہ نظروں کے سامنے گزرتی ہیں اور کچھ رنگین ٹوئیٹس بھی۔ کیا کریں زندگی اتنی مصروف ہے وقت کہاں ہے کسی کو دینے کے لیے لیکن اپنی کامیابی، بیماری، بد ہضمی، بے خوابی، خوشیاں، نا امیدی اور نئے ریسٹورینٹ میں کھانا کھانے کا ڈھنڈورا تو پیٹنا ہوگا ناں، ورنہ پتہ کیسے چلے گا کہ آج آپ نے بہترین کھانا کھایا۔
دوست کے ساتھ ڈیٹ پر گئیں، مہندی کی تیاریاں مکمل، دلہن بیوٹی پارلر میں داخل سے لیکر ہال میں پہنچنے تک، رسموں سے رخصتی تک کے لمحات فیس بک پر اپ لوڈ کرنا ایسے ہی ہے جیسے امی آواز دیں تو جواب جائے جی امی۔ ارے ہاں امی سے یاد آیا ایک بار ان کی سالگرہ تھی میں نے ایک ٹیکسٹ میسج ان کے موبائل پر بھیجا اور پھر اگلے دن ایک تحفہ دیا، امی خوش ہوئیں اور کہا حیرت ہے ہر سال چھوٹی بڑے والہانہ پن سے سالگرہ کی مبارکباد دیتی ہے اس بار شاید وہ بھول گئی۔
میں نے کہا بھولی نہیں ہے اس نے آپ کو فیس بک پر سالگرہ کی مبارکباد دی ہے۔ امی نے حیرت سے کہا کہ میں تو فیس بک پر ہوں ہی نہیں، تو میں نے جواب دیا یہی تو ساری بات ہے جو نہیں ہیں انہی کے لیے تو ایسے پیغامات دیے جا رہے ہیں، امی نے چھوٹی کو بلایا اور اور پوچھا تو ہنس کر کہتی ہے کہ میں نے آپ کو اتنا اچھا 'وش' کیا ہے، 'کولاج' بنایا ہے اور تصاویر بھی لگائی ہیں اور دیکھیں کتنے سارے لوگوں نے لائک بھی کیا۔
ارے جناب یہ تو ہو گئی ایک مثال ایک اور بھی سنیے۔ میں نے ایک خاتون سے پوچھا کہ 'فِیلنگ سِک' کا اسٹیٹس فیس بک پر لگانے کا مقصد؟ تو جواب آیا پگلی باس وہاں ایڈ ہیں، اور تو اور جس شوہر کی برائیاں سارے رشتے داروں میں مشہور ہیں اس کی شان میں قصیدے، رومانوی شاعری کے اسٹیٹس روز اپ ڈیٹ ہوتے ہیں وہی شوہر شام کو یہ سن رہا ہوتا ہے کہ میں ہی ہوں جو حوصلے سے تمہارے ساتھ چل رہی ہوں۔ ویسے آپس کی بات ہے زیادہ تر عقلمند لوگوں نے بیوی اور شوہر کو ایڈ ہی نہیں کیا ہوا۔
ہم نے اب سوشل میڈیا کو میدان جنگ میں بھی تبدیل کر دیا ہے لوگوں کی زندگی موت کے فیصلوں سے لے کر بہتر، اور بدتر مسلمان ہونے، باکردار سے بد کردار ہونے کے سرٹیفیکیٹس جاری کرنے سے لے کر اللہ سے ہمت مانگنے کی دعائیں بھی یہیں چھاپ دیتے ہیں۔ جو دعائیں نماز میں ہونی چاہیئں تھیں، وہ سب یہاں شروع ہو گئیں۔
وہ جسے پڑوس کے گھر میں رہنے والوں کا معلوم نہیں وہ شام، روس اور ترکی کے انتخابات میں اردگان کی فتح سے لے کر پاناما کے فرعون کی حنوط شدہ لاش کی طرح محفوظ فیصلے پر ایسے ایسے اسٹیٹس اپ ڈیٹ کرتا ہے کہ مجھے گمان ہوتا ہے پاکستان کی 50 فیصد عوام نے بین الاقومی تعلقات میں اور 50 فیصد نے اسلامیات میں ماسٹرز کر رکھا ہے۔
یہاں کسی کا بھٹو زندہ ہے تو کسی کا شیر پنجرہ توڑ کے باہر نکل کر پتنگ اڑا رہا ہے، کسی کا بلا وکٹیں گرا رہا ہے تو کسی کی روشن خیالی کی شمع اولمپکس کی شمع کی طرح ایسے روشن ہے کہ یونان کی تہذیب اور یورپ کی روشن خیالی بھی ماند پڑ چکی ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں سماجی رابطوں کے ان ذرائع کی بدولت اب خبر ہو یا کوئی بھی عالمی و مقامی معلومات برق رفتاری سے لوگوں تک پہنچ جاتی ہیں کئی واقعات پر ایکشن لیے جاتے ہیں کئی آنکھیں کھول دینے والی کہانیاں اور چہرے سامنے آ جاتے ہیں۔ دنیا بھر کی خبریں منٹوں میں معلوم ہو جاتی ہیں لیکن اس کا مثبت استعمال کتنا ہے اور تفریحی کتنا، یہ لوگوں کا استعمال بتا دیتا ہے۔
اس کی ایک اہم مثال یہ کہ میرے مضامین گھر تک بعد میں پہنچتے ہیں خاندان والوں کے فون پہلے آجاتے ہیں، چینل تبدیل کیے چند روز ہوتے ہیں اس چینل کی اندرونی کہانیاں رشتے دار پہلے بتا دیتے ہیں۔
میری ایک دوست نے بتایا کہ ایک بار اس کی اماں کو یہ سننے کو ملا بیٹی میڈیا میں ہے اتنے لوگ سوشل میڈیا پر موجود ہیں خاندان کی بچیوں کے اچھے اچھے رشتے ہی کرا دے۔ اس کا کہنا ہے کہ اس پر اس روز انکشاف ہوا کہ اچھا رشتے تو یہاں بھی ڈھونڈے جاتے ہیں۔ ویسے اس سے یاد آیا کہ کچھ ایسی شادیاں ہوئی ہیں، فلٹر لگا کر بکری جیسا منہ بنا کر تصویر اپ لوڈ کی اور فریفتہ ہونے والا نوجوان رشتہ لے کر پہنچ گیا۔ معاملات طے ہو جانے کے بعد پتہ چلا کہ کمال فلٹر کا تھا، جمال دھوکے میں مارا گیا۔
صحافت میں یوں تو کئی سال ہو گئے لیکن کافی سال سوشل میڈیا سے دور بھاگنے میں کامیابی حاصل رہی لیکن ایک دن ایک منہ بولی خالہ نے ایسا طعنہ مارا کہ ہمیں بھی وہ موبائل لینا پڑا جس میں یہ سارے فتنے ایک ہی وقت میں انسان کو پاگل کرنے کا کام بخوبی جانتے ہیں۔
خالہ نے اپنے جدید آئی فون پر نظریں جماتے ہوئے پوچھا ایک کام کی چیز ہے تمہیں واٹس ایپ کر دیتی ہوں، جب میں نے کہا کہ میں استعمال نہیں کرتی تو ہمیں گھورتے ہوئے کہا حیرت ہے میرے مالی، چوکیدار، اور ٹینکر والے کے پاس بھی واٹس ایپ ہے اور ایک تم ہو۔ ہم سدا کے ڈھیٹ پھر بھی تاخیر سے کام لیا اور موبائل بہت مہینوں بعد خرید لیا اس طرح ہم بھی مالی چوکیدار اور ٹینکر والے کا فخر سے سامنا کر سکتے ہیں لیکن آج یہ واٹس ایپ ایک عذاب ضرور محسوس ہوتا ہے۔
ہاں تو بات ہو رہی تھی فیس بک کی۔ جہاں فاتحہ خوانی سے لے کر ہنی مون تک سب اسی پر پتہ چل جاتا ہے یہاں تک کہ کوئی صاحب اولاد ہونے والا ہے تو اس کی اپ ڈیٹ بھی یہیں مل جاتی ہے۔ کس نے کتنا بڑا پیزا کھایا، کتنی بار لیموں پانی پیا، کتنی بار کارمینا کھائی اور واش روم گیا، کتنی بار منگیتر سے محبت کا اظہار کیا اور دھوم دھام سے شادی کی اور پھر اگلے سال وہی وعدے وہی قسمیں وہی دھوم دھام دوباہ اپ لوڈ ہوئی لیکن اس بار دوسری بیگم کے ساتھ۔
ہماری اماں کا کہنا ہے کہ اگر یہ سب وہاں بتانا فرض عین ہے تو یہ کوئی کیوں نہیں اپ ڈیٹ کرتا کہ آج اسے ماں باپ سے کتنی گالیاں اور بے عزتی سہنی پڑیں ہیں۔ ماں باپ کو پتہ نہیں بچے مہنگے مہنگے ریسٹورینٹس میں بیٹھے کھاپا کر رہے ہیں اور تصاویر اپ لوڈ کر کے دنیا کو بتا رہے ہیں کہ وہ کسی رئیس کی اولاد ہیں۔
اگر کوئی عورت شوہر کی شان میں اور شوہر بیوی کی شان میں قصیدے پڑھ رہا ہے تو یہ کیوں نہیں اپ ڈیٹ کرتا کہ روز ان کے درمیان کیسی کیسی جنگیں ہوتی ہیں؟ جس ماں باپ کا نام لے کر سالگرہیں، فادرز، مدرز ڈے وش کیا جاتا ہے وہاں یہ کیوں نہیں بتایا جاتا کہ جب یہ والدین آواز دیتے ہیں تو یہ بچے نہ جانیں کن ماؤں کی سیوا کرنے میں مصروف ہوتے ہیں۔
جن بڑے بڑے فوڈ چین میں جا کر چیک ان کے اسٹیٹس اپ ڈیٹ کیے جاتے ہیں انہیں یہ بھی نہیں پتہ کہ ٹھنڈا پانی اگر پینا ہے تو پانی کی بوتل بھر کر فریج مین بھی رکھنی ہوتی ہے۔ فِیلنگ ٹائید کا اسٹیٹس اپ ڈیٹ کرنے والے یہ کیوں نہیں لکھتے ان کو پالنے والے والدین بھی اب تھک چکے ہیں۔
ویسے بات سچ ہی ہے لیکن امی کو کون بتائے کہ ہنی مون کی تصویریں اپ لوڈ کرنے کا مقصد سہیلی اور خاندان کی کزنز کو جلانا ہے کہ دیکھو کیسا مٹھی میں رکھا ہے میاں جان کو، شادی کے پانچویں روز ہی اڑن چھو کردیا اور فاتحہ خوانی کا مقصد صرف اتنا کہ جو دعا کرنی ہے یہاں کر دو پلیز گھر مت آ جانا۔
جب شادی کے دعوت نامے سوشل میڈیا پر آنے لگیں تو دعائیں بھی ایسی ملیں گی جیسے پی ٹی سی ایل براڈ بینڈ کے سگنل ملتے ہیں تو پھر شکوہ کیسا؟
سچ تو یہ ہے کہ ہم اب لوگوں سے بھاگ رہے ہیں اپنوں کا سامنا کرنا نہیں چاہتے، دل میں زہر رکھتے ہیں زبان میں شیرینی تبھی تو ہم سب نے فیس بک، ٹوئیٹر، واٹس ایپ اور دیگر سوشل میڈیا کو سب کچھ سمجھ لیا ہے تب ہی ہر گھر میں آج خاموشی ہوتی ہے وائی فائی چلتا رہتا ہے سب کانوں میں ہینڈز فری لگائے اپنی اپنی بنائی ہوئی دنیا میں مگن ہوتے ہیں۔
مگر میری ماں خوب جانتی ہیں اس کا حل، انہیں جب جاننا ہو کہ گھر میں آج کون کون ہے تو وائی فائی اچانک بند ہو جاتا ہے تب ہل چل ہوتی ہے خاموشی ٹوٹتی ہے، رویے بدلتے ہیں لہجے ترش ہوتے ہیں اور پھر اماں کے کمرے میں سارے موبائل ایسے جمع ہوتے ہیں جیسے ایس ایس پی ملیر راؤ انوار کے پاس دہشت گرد پیش کیے جاتے ہیں.
سدرہ ڈار نیو نیوز میں رپورٹر ہیں اور ماحولیات، موسم، اور سماجی مسائل پر فیچر اسٹوریز پر کام کر رہی ہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔