پاکستان

'سپریم کورٹ کے فیصلے کو چیلنج نہیں کریں گے'

ہمارا مطالبہ وزیراعظم کا استعفیٰ ہے، لہذا اب ہم عوامی عدالت میں جائیں گے، پی ٹی آئی رہنما شیریں مزاری

پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی رہنما شیریں مزاری نے واضح کیا ہے کہ وزیراعظم نواز شریف کے استعفے کے بغیر مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) کا قیام بے معنیٰ ہوگا۔

ڈان نیوز کے پروگرام 'دوسرا رُخ' میں گفتگو کرتے ہوئے شیریں مزاری نے کہا کہ سپریم کورٹ خود کہہ چکی ہے کہ ادارے درست انداز میں کام نہیں کررہے ہیں، تو پھر انھی اداروں پر مشتمل جے آئی ٹی بنانے سے کچھ حاصل نہیں ہوسکتا۔

انھوں نے کہا کہ 'ہمارا مطالبہ وزیراعظم کا استعفیٰ ہے، لہذا اب ہم عوامی عدالت میں جائیں گے تاکہ حکومت پر دباؤ بڑھایا جائے اور اس ایک نکاتی ایجنڈے پر پوری اپوزیشن ہمارے ساتھ ہے'۔

پی ٹی آئی رہنما نے کہا کہ ان کی جماعت اب عدالت میں نظر ثانی درخواست دائر نہیں کرے گی، بلکہ ہماری اگلی حکمتِ عملی عوام کے سامنے جانا ہے۔

انھوں نے عدالتی فیصلے کے بعد ن لیگ کی جانب سے جشن منانے اور مٹھائیاں تقسیم کرنے کو تنقید کا نشانہ بنایا اور کہا کہ عدالت کی جانب سے وزیراعظم سے مزید تحقیقات پر مٹھائی تقسیم کرنا سجھ سے بالاتر ہے۔

مزید پڑھیں: پاناما کیس: سپریم کورٹ کا جے آئی ٹی بنانے کا فیصلہ

اس سوال پر کہ کیا آپ اپنی احتجاجی تحریک میں پیپلز پارٹی کو بھی شامل کریں گے؟ تو ان کا کہنا تھا کہ ہم سب کا اب ایک ہی مطالبہ ہے کہ وزیراعظم کو اپنے عہدے سے استعفیٰ دینا چاہیے اور اس موقف پر سب ایک ہیں۔

پروگرام میں موجود سینئر تجزیہ کار زاہد حسین کا کہنا تھا کہ اصولی طور پر جب وزیراعظم یا کسی بھی وزیر پر کوئی الزام ہو تو اسے اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دینا چاہیے۔

انھوں نے کہا کہ پاناما کیس کے فیصلے میں دو ججوں نے واضح طور پر کہہ دیا کہ وزیراعظم صادق اور امین نہیں رہے، اور باقی تین ججوں کی جانب سے جے آئی ٹی میں پیش ہونے کا حکم بظاہر وزیراعظم پر فردِ جرم عائد کیے جانے کے مترادف ہے۔

خیال رہے کہ سپریم کورٹ نے پاناما لیکس کیس کے تاریخی فیصلے میں وزیراعظم نواز شریف کے خلاف مزید تحقیقات کے لیے فیڈرل انویسٹی گیشن ایجنسی (ایف آئی اے) کے اعلیٰ افسر کی سربراہی میں مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) بنانے کا حکم دیا جسے حکمران جماعت مسلم لیگ (ن) نے 'فتح' قرار دیا، جبکہ تحریک انصاف بھی اس فیصلے کو اپنی جیت تصور کررہی ہے۔

جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے لارجر بینچ نے کورٹ روم نمبر 1 میں پاناما لیکس کے معاملے پر آئینی درخواستوں کا فیصلہ سنایا جسے رواں سال 23 فروری کو محفوظ کیا گیا تھا۔

540 صفحات پر مشتمل اس فیصلے کو جسٹس اعجاز اسلم خان نے تحریر کیا۔

پاناما کیس کے تفصیلی فیصلے کے آغاز میں جسٹس آصف سعید کھوسہ نے 1969 کے مشہور ناول 'دی گاڈ فادر' کا ذکر کرتے ہوئے لکھا، 'ہر بڑی دولت کے پیچھے ایک جرم ہوتا ہے'۔

یہ بھی پڑھیں: پارلیمنٹ میں وزیراعظم سےاستعفے کامطالبہ،پی ٹی آئی کاجلسے کااعلان

فیصلے کے مطابق فیڈرل انویسٹی گیشن ایجنسی (ایف آئی اے) کے سینئر ڈائریکٹر کی سربراہی میں 7 دن کے اندر جے آئی ٹی تشکیل دی جائے گی جو 2 ماہ میں اپنی تحقیقات مکمل کرے گی، جبکہ جے آئی ٹی کو ہر 2 ہفتے بعد سپریم کورٹ کے بینچ کے سامنے اپنی رپورٹ پیش کرنے کی بھی ہدایت کی گئی ہے۔

دوسری جانب پاناما لیکس کیس کا فیصلہ آنے کے بعد اپوزیشن کی تین بڑی جماعتوں تحریک انصاف، پیپلز پارٹی اور جماعتِ اسلامی نے وزیراعظم سے استعفے کا مطالبہ کیا ہے، جبکہ پی ٹی آئی چیئرمین عمران خان 28 اپریل کو اسلام آباد میں جلسے کا اعلان کرچکے ہیں۔

دو روز قبل پارلیمنٹ میں بھی وزیراعظم کے استعفے کی باز گشت جاری رہی، جبکہ اس دوران ایوان میں اپوزیشن کی طرف سے 'گو نواز گو' کے نعرے میں لگائے گئے۔