بھارتی صحافی کرن تھاپڑ—
جمعہ (21 اپریل) کو بھارتی ویب سائٹ انڈین ایکسپریس پر شائع ہونے والے اس آرٹیکل کے آغاز میں ہی اس خیال کا اظہار کیا گیا کہ ’پاکستان میں سزا پانے والے بھارتی جاسوس کا کیس جوابات سے زیادہ سوالات کھڑے کرتا ہے‘۔
بھارتی صحافی لکھتے ہیں کہ انہیں کلبھوشن یادیو کے معاملے نے تجسس میں مبتلا کیا، لہذا انہوں نے اس حوالے سے مزید کھوج لگانے کا سوچا لیکن جیسے جیسے وہ مزید پڑھتے گئے، معاملہ الجھتا چلا گیا اور آخر میں ان کے پاس کئی سوالات تھے۔
کرن تھاپڑ کو پریشانی میں مبتلا کرنے والی پہلی چیز کلبھوشن یادیو کے 2 پاسپورٹس تھے، جن میں سے ایک ان کے اپنے نام پر اور دوسرا حسین مبارک پٹیل کے نام سے تھا۔
یہ بھی پڑھیں: بھارتی جاسوس کلبھوشن یادیو کو سزائے موت سنا دی گئی
انڈین ایکسپریس کے مطابق، ’کلبھوشن کا دوسرا پاسپورٹ 2003 میں جاری ہوا اور 2014 میں اس کی تجدید ہوئی، ان پاسپورٹ کے نمبرز E6934766 اور L9630722 تھے‘۔
صحافی کرن تھاپڑ نے جب اس حوالے سے وزارت خارجہ امور سے رابطہ کیا تو وزارت کا کہنا تھا کہ جوابات اُسی وقت حاصل کیے جاسکتے ہیں جب بھارتی حکام کو کلبھوشن یادیو تک رسائی حاصل ہوتی ہے، جس پر بھارتی صحافی نے اپنے آرٹیکل میں یہ تجویز پیش کی کہ ’کیوں نہ ان پاسپورٹ نمبرز کے ساتھ جڑے ریکارڈز کو چیک کیا جائے کیونکہ ان سے یقینی طور پر معلومات سامنے آسکیں گی‘۔
مزید پڑھیں: ’کلبھوشن پاکستان کی سالمیت کو نقصان پہنچانے میں ملوث‘
بھارتی حکومت کے اس دعویٰ پر کہ کلبھوشن یادیو کو ایران سے اغوا کیا گیا تھا اور زبردستی بلوچستان لایا گیا تھا، کرن تھاپڑ کا کہنا تھا کہ نئی دہلی نے اس معاملے میں ایران سے رابطے کی کوشش کی تھی ’لیکن وزارت خارجہ امور کے ترجمان نے اس بات کو تسلیم کیا کہ انہوں نے اس بارے میں جواب نہیں دیا یا شاید اب تک اس حوالے سے تحقیقات کا آغاز ہی نہیں کیا اور ہم نے ایران کی یہ بات مان لی کیا یہ عجیب نہیں ہے؟‘
اپنے آرٹیکل میں مزید سوالات اٹھاتے ہوئے بھارتی صحافی کا کہنا تھا کہ آخر کلبھوشن یادیو میں ایسی کیا خاص بات تھی کہ پاکستان نے ایران میں بسنے والے دیگر تمام بھارتیوں کو چھوڑ کر صرف کلبھوشن کو اغواء کیا، ’آخر ایران میں 4 ہزار کے قریب بھارتی رہتے ہیں اور ان میں سے کوئی بھی اغوا نہیں ہوا‘۔
بھارتی خفیہ ایجنسی ’را‘ کے سابق سربراہ امرجیت سنگھ دلت کے بیان کو حوالہ دیتے ہوئے کرن تھاپڑ کا کہنا تھا کہ انہوں نے اعتراف کیا تھا کہ کلبھوشن جاسوس ہوسکتا ہے، ’یہ بات جو انہوں نے کہی، اگر وہ حکومت کا حصہ ہوتے تو یہ کبھی تسلیم نہ کرتے‘۔
یہ بھی پڑھیں: کلبھوشن کی سزائے موت، اقوام متحدہ کا تبصرے سے انکار
نیپال میں پاکستان کے سابق آرمی افسر لیفٹیننٹ کرنل محمد حبیب کی گمشدگی کے حوالے سے بات کرتے ہوئے بھارتی صحافی کا کہنا تھا کہ ’کیا کلبھوشن یادیو کو اس لیے مجرم قرار دے کر سزا سنائی گئی کہ بھارت پاکستانی جاسوس کو پکڑنے کا دعویٰ کرے اور اب جاسوسوں کے تبادلے پر غور ہو؟‘۔
خیال رہے کہ 10 اپریل کو پاکستان کی جاسوسی اور کراچی اور بلوچستان میں تخریبی کارروائیوں میں ملوث بھارتی ایجنٹ کلبھوشن یادیو کو سزائے موت سنائی گئی تھی۔
آئی ایس پی آر کی جانب سے جاری ہونے والے بیان میں کہا گیا کہ بھارتی خفیہ ایجنسی ’را‘ کے حاضر سروس افسر کلبھوشن یادیو کو یہ سزا پاکستان میں جاسوسی اور تخریب کاری کی کارروائیوں پر سنائی گئی تھی۔
کلبھوشن یادیو کا ٹرائل فیلڈ جنرل کورٹ مارشل نے پاکستان آرمی ایکٹ 1952 کے سیکشن 59 اور سرکاری سیکرٹ ایکٹ 1923 کے سیکشن 3 کے تحت کیا تھا، جس کی توثیق آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے بھی کردی تھی۔