لکھاری مصنف اور صحافی ہیں۔
وزیر اعظم وزارت عظمیٰ سے دستبردار ہونے سے بھلے ہی بچ گئے ہوں، مگر ان کی مشکل ابھی ٹلی نہیں ہے۔ پانچ رکنی بینچ کے اختلافی فیصلے نے انہیں یا ان کے اہل خانہ کو الزامات سے یقینی طور پر بری نہیں کیا ہے۔ شریف خاندان کو ابھی آف شور کمپنیوں میں منی ٹریل اور لندن میں جائیداد کے حوالے سے مزید تحقیقات کا سامنا کرنا پڑے گا۔
اگرچہ وزیر اعظم (تھوڑے سے ہی فرق سے) نااہلی سے بچ گئے ہیں، لیکن تیسری بار برسر اقتدار آنے والے وزیر اعظم اس تاریخی فیصلے کے بعد کافی حد سیاسی کمزوری کا شکار ہوئے ہیں۔ ان کے حامیوں کی جانب سے اپنی فتح قرار دینا قبل از وقت ہے۔ نواز شریف کے مقدمات اور مشکلات کو ختم ہونے ابھی کافی دیر ہے۔ ان کے سیاسی مسقبل کا فیصلہ سپریم کورٹ کی قائم کردہ جے آئی ٹی کرے گی۔ کمیٹی کو اپنی تحقیقات 60 دنوں میں مکمل کر کے جمع کروانے کو کہا گیا ہے۔ ہم پاناما گیٹ کی تاریخ ساز کہانی کا دوسرا حصہ ملاحظہ کر رہے ہیں جس نے ملک کی تمام توجہ اپنے طرف مرکوز کر رکھی ہے۔
پانچ میں سے دو جج صاحبان کی جانب سے انہیں نااہل قرار دینے کے مطالبہ اسے وزیر اعظم پر بڑی حد تک ایک تنقیدی حکم نامہ بنا دیتا ہے۔ باقی تین جج اس انتہائی قدم پر متفق بھلے نہ ہوں، مگر جج صاحبان اس بات پر متفق ہیں کہ شریف خاندان لندن میں مہنگی جائداد خردینے کے لیے پیسوں کے ذرائع کے حوالے سے ٹھوس شواہد فراہم کرنے میں ناکام ہوئی ہے۔ لہٰذا مزید تحقیقات کی ضرورت ہے۔
دلچسپ طور پر، دو اختلافی جج کافی سینئر ترین جج ہیں اور چیف جسٹس کے عہدے پر ترقی پانے والے ججوں کی صف میں شامل ہیں۔ اگرچہ بڑی حد تک اختلافی فیصلے کی توقع تھی، مگر اس فیصلے نے، حزب اختلاف کی جماعتوں کو مایوس کرتے ہوئے، معاملے کو سیاسی غیر یقینی کے ساتھ بے نتیجہ بھی چھوڑ دیا ہے۔ بلکہ نواز شریف کی نااہلی کے مسئلے کو جے آئی ٹی کی جانب سے تحقیقاتی رپورٹ جمع کروانے تک منسوخ کر دیا ہے۔
انوکھی بات یہ ہے کہ 540 صفحات پر مشتمل فیصلے کی شروعات ماریہ پوزو کے سحر انگیز ناول دی گاڈ فادر کے لفظوں کے ساتھ ہوتی ہے — ’ہر بڑی خوش قسمت کے پیچھے ایک جرم ہوتا ہے۔’ یہ لفظ حقیقت میں 19 صدی کے فرانسیسی لکھاری بالزاک سے منسلک ہیں۔ ان لفظوں کا استعمال خود، خاص طور پر اسکینڈل کے سیاق و سباق میں کافی کچھ منکشف کرتا ہے۔ بینچ نے شریف خاندان کی گلف اسٹیل سے متعقلہ منی ٹریل کے بارے میں بھی سوالات اٹھائے ہیں اور جے آئی ٹی کو اس قطری کی تحقیقات کرنے کا حکم دیا جسے شریف خاندان کے وکیل نے مقدمے میں ثبوت کے طور پر پیش کیا تھا۔
ملکی تاریخ میں ایسا پہلی بار ہوگا جب ایک موجودہ وزیر اعظم، مالی جرائم کے الزامات پر تحقیقات کرنے والی ایک تحقیقاتی ٹیم کے آگے پیش ہوں گے۔ یہاں ایک بہت ہی ایک اہم سوال کھڑا ہوتا ہے کہ آیا تحقیقات کے دوران انہیں وزارت عظمیٰ کے عہدے پر فائز رہنا چاہیے یا نہیں۔ یہاں اخلاقیات کا بھی سوال پیدا ہوتا ہے۔ بلاشبہ ملک میں ایسی کوئی مثال نہیں ملتی کہ جب ایک سیاسی رہنما رضامندانہ طور پر اقتدار سے دستبردار ہوا ہو۔ مگر چونکہ وزیراعظم اخلاقی اختیارات کے ساتھ مالی اسکینڈل پر تحقیقات کاسامنا کریں گے لہٰذا ان کا عہدہ یقیناً شکوک و شبہات کا سبب ہے۔
غیر معمولی طور پر، جے آئی ٹی میں فوجی انٹیلجنس اور آئی ایس آئی کے نمائندے شامل ہیں جو موجودہ وزیر اعظم کے خلاف تحقیقات میں فوج کو شامل کار بنا دیتے ہیں۔ خالص مالی تحقیقات میں انٹیلجنس اداروں کی شمولیت سے سنجیدہ سیاسی پیچیدگیاں پیدا ہو سکتی ہیں۔ اس کے پیچھے منطق کچھ سمجھ نہیں آتی۔ کس طرح خفیہ ادارے ایک مالی اسکینڈل کی تحقیقات کر سکتے ہیں؟ یہ فیصلہ جنرلوں کو بھی سیاسی کھیل میں ایک پارٹی بنا دیتا ہے جو سول فوجی تعلقات کے درمیان سنگین نتائج کا باعث بن سکتا ہے۔
یہ تو واضح نظر آ رہا ہے کہ نواز شریف آخر تک مقابلہ کرنے اور اپوزیشن کی جانب سے اقتدار سے دستبردار ہونے کے دباؤ کے آگے ہار نہ ماننے کے لیے پرعزم ہیں۔ ان کے حامی اس بارے میں کافی پر اعتماد دکھائی دیتے ہیں کہ وہ جے آئی ٹی کی تحقیقات کو اگلے سال انتخابات تک کھینچنے میں کامیاب رہیں گے۔ گزشتہ جے آئی ٹیز کے پیش نظر، آپ اس امکان کو مکمل طور پر رد نہیں کر سکتے۔ مگر یہ بات ان کے لیے سیاسی طور پر مددگار ثابت نہیں ہوگی۔ ریکارڈ چوتھی بار اقتدار پانے کے خواہاں رہنما کے لیے پاناما گیٹ کے سائے تلے انتخابات لڑنا کامیابی کے لیے مثبت آثار دیتا۔
اخلاقی اور سیاسی طور پر کمزور وزیر اعظم کے لیے ایک بڑا چیلنج انتہائی مشتعل حزب اختلاف سے نمٹنا ہے۔ تقریباً تمام سیاسی جماعتیں ہی ان کے استعفیٰ کے مطالبے پر متحد نظر آتی ہیں۔ خود کو بہادر سمجھنے کے خیال کے باوجود مسلم لیگ ن کے حامیوں کے درمیان صورتحال کی سنجیدگی کا گہرا احساس موجود ہے۔
بلاشبہ، پاناما گیٹ اور عدالتی فیصلے نے ملک کی سیاسی ماحول کو بدل رکھ دیا ہے۔ جس نے مرکزی سیاسی میدان پنجاب میں مسلم لیگ ن کی ناقابل تسخیر سمجھی جانے والی حیثیت کو مشکل میں ڈال دیا ہے۔ اگرچہ بے نتیجہ حکم نامے نے نواز شریف کے روایتی حریف، پی ٹی آئی کو ان پر دباؤ قائم کرنے کے لیے زبردست مواقع بھی فراہم کیے ہیں۔
پی ٹی آئی کی جانب سے حکم نامے کو اپنی اخلاقی اور سیاسی فتح قرار دینے پر کوئی حیرانی نہیں ہے۔ فیصلے پر پیپلز پارٹی کا رد عمل مبہم ہے۔ آصف علی زرداری نے فیصلے کو وزیر اعظم کو دی گئی لائف لائن قرار دیا۔ اگرچہ وہ نواز شریف کے استعفیٰ کا مطالبہ کر چکا ہیں مگر یہ واضح نہیں کہ آیا ان کی جماعت حکومت مخالف تحریک میں پی ٹی آئی کا ساتھ دے گی یا نہیں۔
بری طرح خستہ حالی کا شکار نواز شریف اقتدار کو اپنے خاندان تک محدود رکھنے کے لیے شاید دیگر آپشنز پر غور کر رہے ہوں۔ یہ ممکن ہے کہ نواز شریف چوتھی بار حکومت میں آنے کی کوشش نہ کریں اور اپنے بجائے اپنی بیٹی مریم نواز کو بطور اگلا رہنما سامنے لے کر آئیں۔ حکم نامے میں مسلم لیگ ن کے لیے ایک مثبت نکتہ یہ ہے کہ پاناما معاملے سے مریم نواز بری ہو چکی ہیں۔ کہ وہ وزیر اعظم کے لیے اب فکر کا باعث نہیں۔
دختر اول کافی عرصہ پہلے سے ہی بظاہر ان کی سیاسی وارث منظر عام پر نظر آ رہی ہیں۔ لگ بھگ وہ ہی پارٹی کو چلاتی آ رہی تھیں اور گزشتہ سال اپنے والد کی غیر موجودگی میں اہم حکومتی فیصلوں میں بھی شامل رہیں۔ پارٹی بھی یہ اعلان کر چکی ہے کہ اگلے انتخابات میں بھی وہ حصہ لیں گی۔ مگر یوں خاندانی اختلافات میں بھی شدت پیدا ہو سکتی ہے۔ سیاسی وراثت کی صف میں کھڑے طاقتور چچا کی موجودگی کے باوجود سیاسی وراثت کی انہیں منتقلی آسان نہیں ہو گی۔
چاروں اطراف سے گھرے ہوئے وزیر اعظم کے سر پر ڈیموکلز کی تلوار کا سایہ اب بھی موجود ہے۔ خود کو بچانے کی ایک گھماسان لڑائی ابھی لڑنا باقی ہے۔
یہ مضمون 21 اپریل 2017 کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔
انگلش میں پڑھیں۔