پاکستان

پارلیمنٹ میں وزیراعظم سےاستعفے کامطالبہ،پی ٹی آئی کاجلسے کااعلان

سپریم کورٹ کہتی ہے انصاف کے ادارے مفلوج ہیں، کیا یہ ادارے وزیراعظم ہوتے ہوئے ان کے خلاف تحقیقات کرسکتے ہیں؟ عمران خان

اسلام آباد: سپریم کورٹ کی جانب سے پاناما کیس کا فیصلہ سامنے آنے کے بعد پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے چیئرمین عمران خان نے نواز شریف سے استعفے کا مطالبہ منوانے کے لیے آئندہ جمعے (28 اپریل) اسلام آباد میں جلسے کا اعلان کردیا۔

قومی اسمبلی کے اجلاس کے بعد میڈیا سے گفتگو میں پاناما کیس کے فیصلے پر تبصرہ کرتے ہوئے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے چیئرمین عمران خان کا کہنا تھا کہ 'پاکستان کی تاریخ میں ایسا کبھی نہیں ہوا کہ ایک موجودہ وزیراعظم کے خلاف سپریم کورٹ نے ایسے ریمارکس دیئے ہوں'۔

عمران خان کا کہنا تھا کہ 'پاناما کا مسئلہ ایک سال سے چل رہا تھا اور میں پچھلے 4 ماہ سے عدالت میں تھا، میں درخواست گزار تھا، لیکن مجھے ایوان میں بولنے کا موقع نہیں دیا گیا'۔

پی ٹی آئی چیئرمین نے سپریم کورٹ کے فیصلے کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ 'ججز نے کہا کہ جو یہ لوگ (شریف برادران) ایک سال تک کہتے رہے، ہم مسترد کر رہے ہیں'۔

یہ بھی پڑھیں: پاناما کیس: سپریم کورٹ کا جے آئی ٹی بنانے کا فیصلہ

چیئرمین پاکستان تحریک انصاف کا کہنا تھا کہ ایک طرف سپریم کورٹ کہتی ہے کہ پاکستان میں انصاف کے ادارے مفلوج ہوچکے ہیں، تو کیا یہ ادارے نواز شریف کے وزیراعظم ہوتے ہوئے ان کے خلاف تحقیقات کرسکتے ہیں؟ کیا ہماری طرف سے استعفیٰ کی یہ ڈیمانڈ غلط ہے؟

ان کا کہنا تھا کہ ‘میں لیگی کارکنوں سے پوچھتا ہوں وہ مٹھائی کس چیز کی بانٹ رہے تھے، دو ججز نے انہیں جھوٹا قرار دیا تھا اور وہ لوگ مٹھائیاں بانٹتے رہے‘۔

’جے آئی ٹی شرم کی بات ہے‘

قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر سید خورشید شاہ نے سینیٹر اعتزاز احسن کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ ’ہمیں ہمیشہ یہ طعنہ دیا گیا کہ آپ لوگ نواز شریف کو سہارا دے رہے ہیں، لیکن درحقیقت ہم نے ہمیشہ جمہوریت اور اداروں کا ساتھ دیا‘۔

پیپلز پارٹی بھی وزیر اعظم سے استعفے کا مطالبہ کر رہی ہے— فوٹو : ڈان نیوز

خورشید شاہ نے کہا کہ کل سپریم کورٹ کے 2 ججز نے کلیئر، واضح اور دو ٹوک الفاظ میں نواز شریف کے خلاف فیصلہ دیا جبکہ 3 ججز نے ان کی تردید نہیں کی، صرف یہ چیز شامل کردی کہ جے آئی ٹی بنادی جائے۔

ان کا کہنا تھا کہ 'ایک 19 گریڈ کے افسر کو کہا گیا ہے کہ تم اپنے مالک کی ، جس سے تم تنخواہ لیتے ہو، اس سے تفتیش کرو، یہ کھوکھلی تفتیش ہوگی، جے آئی ٹی بڑی شرم کی بات ہے، ہم اس جے آئی ٹی کو نہیں مناتے'۔

مزید پڑھیں: کیا متعلقہ ادارے وزیراعظم کے خلاف تحقیقات کرسکیں گے؟

جے آئی ٹی کو مسترد کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ’جے آئی ٹی بنانی ہے تو سپریم کورٹ کے تین ججز یا ہائی کورٹ کے چاروں جج کی جے آئی ٹی بنائی جائے‘۔

خورشید شاہ نے وزیراعظم کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ 'ہم یہ نہیں چاہتے کہ حکومت ختم ہو، لیکن یہ آپ پر ہے کہ آپ پارلیمنٹ کو بچانا چاہتے ہیں یا اپنے کردار کی جنگ لڑنا چاہتے ہیں'۔

دوسری جانب سینیٹر اعتزاز احسن کا کہنا تھا کہ ’مریم نواز جو سارے مسئلہ کا منبع ہیں انہیں جے آئی ٹی سے پہلے ہی جے آئی ٹی سے فارغ کردیا گیا‘۔

ان کا کہنا تھا کہ تاریخ کا حصہ ہے، سپریم کورٹ شریف خاندان پر نرم ہاتھ رکھتی ہے، مسلم لیگ (ن) لیگ سپریم کورٹ پر حملہ کرتی ہے لیکن ان کے خلاف کچھ نہیں ہوتا۔

اعتزاز احسن کا مزید کہنا تھا کہ سپریم کورٹ میں تین ججز نے یہ نہیں کہا کہ نواز شریف نا اہل نہیں، اگر 3 ججزکہتے کہ نواز شریف اہل ہیں تو فیصلہ حاوی ہوتا۔

سینیٹر اعتزاز احسن نے کہا کہ سلام کرتا ہوں ان دو ججز کو جنہوں نے نواز شریف کو نا اہل قرار دیا۔

یہ بھی پڑھیں: پاناما گیٹ فیصلہ: جسٹس آصف کھوسہ کے ریمارکس

ان کا کہنا تھا کہ فیصلے میں موجود مواد نوازشریف کو نااہل قرار دینے کے لیے کافی ہے، قطری خط کو ردی کا ٹکڑا قرار دیتے ہوئے رد کیا گیا ہے۔

ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ وزیراعظم سے استعفیٰ حاصل کرنے کے لیے پاکستان پیپلز پارٹی نئی حکمت عملی تیار کرے گی۔

’فیصلہ منزل نہیں لیکن کامیابی کی طرف پیش قدمی ہے‘

جماعت اسلامی بھی پاناما کیس میں درخواست گزار تھی— فوٹو : ڈان نیوز

امیر جماعت اسلامی سراج الحق کا کہنا تھا کہ ’پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار موجودہ وزیراعظم اور حکومت کے خلاف فیصلہ سامنے آیا ہے‘۔

ان کا کہنا تھا کہ ’دو ججز نے وزیراعظم کو نااہل قرار دیا اور دیگر تین ججز نے بھی جے آئی ٹی کی ضرورت محسوس کی‘۔

پاناما فیصلے پر تبصرہ کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ’فیصلہ منزل تو نہیں لیکن کامیابی کی طرف پیش قدمی ہے، دو ججز کا نااہل قرار دینا بہت بڑی بات ہے‘۔

سراج الحق کا کہنا تھا کہ ’ہمارا اور مشترکہ اپوزیشن کا مطالبہ ہے کہ معاملے کی آزادانہ تحقیقات کے لیے نواز شریف استعفی دیں، اخلاقی تقاضا ہے کہ وہ استعفی دیں، کیونکہ اگر وہ اس بڑے عہدے پر رہتے ہیں تو تحقیقات کیسے ہوں گی؟‘۔

تحقیقات مکمل ہونے تک استعفیٰ کا مطالبہ کرتے ہوئے امیر جماعت اسلامی کا کہنا تھا کہ ’ساٹھ روز میں جے آئی ٹی کی تحقیقات مکمل ہونے کے بعد وزیراعظم کلیئر ہوتے ہیں تو وہ واپس وزیراعظم کا عہدہ سنبھال سکتے ہیں‘۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ ’مجھے امید تھی سپریم کورٹ کوئی میکانزم، یا روڈ میپ دے گی جس پر سب سے پہلے سراج الحق پیش ہوگا اور دوسروں کو بھی پیش کیا جائے گا لیکن ایسا نہیں ہوسکا‘۔

قومی اسمبلی اور سینیٹ میں ہنگامہ آرائی

اس سے قبل پاناما کیس کا فیصلہ سامنے آنے بعد قومی اسمبلی اور سینیٹ اجلاسوں میں اپوزیشن جماعتیں فیصلے کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے وزیراعظم سے مستعفی ہونے کا مطالبہ کرتی نظر آئیں۔

اجلاس کے دوران ’گو نواز گو‘ کے نعرے لگائے گئے اور اپوزیشن ارکان نے احتجاجاً ایجنڈے کی کاپیاں پھاڑ دیں۔

اپوزیشن کے احتجاج کے باعث سینیٹ اور قومی اسمبلی کے اجلاس غیر معینہ مدت تک کے لیے ملتوی کردیئے گئے۔

اپوزیشن کی پارلیمانی جماعتوں کا اجلاس

اجلاس سے قبل پارلیمنٹ میں اپوزیشن کی پارلیمانی جماعتوں کا اجلاس اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ اور سینیٹر اعتزاز احسن کی سربراہی میں ہوا۔

اجلاس میں پاناما پیپرز کے فیصلے پر مشاورت کی گئی اور اپوزیشن نے سینٹ اور قومی اسمبلی میں وزیر اعظم سے مستفی ہونے کا مطالبے سمیت معاملے ہر پر بھر پور احتجاج کا فیصلہ کیا گیا۔

سراج الحق، شاہ محمود قریشی، شیریں مزاری بھی اجلاس میں شریک تھے تاہم عمران خان نے اپوزیشن کے مشترکہ اجلاس میں شرکت نہیں کی۔

اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ کا کہنا تھا کہ سوائے حکومت کے تمام جماعتوں کو پاناما کیس فیصلہ سمجھ آ گیا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ’آج قومی اسمبلی اور سینیٹ کے اجلاس غیر معینہ مدت تک ملتوی ہو جائیں گے جبکہ اپوزیشن جماعتوں کو آج دونوں ایوانوں میں بھرپور احتجاج کرنا چاہیئے‘۔

سربراہ عوامی مسلم لیگ شیخ رشید کی پارلیمنٹ ہاؤس کے باہر میڈیا سے گفتگو میں کہا کہ تمام جماعتیں حکومت کے خلاف گرینڈ الائنس بنائیں۔

اپنے برجستہ انداز میں شیخ رشید کا کہنا تھا کہ ’دو مضمونوں میں فیل ہوئے اور تین میں سپلی آنے کے بعد بھی پپو پاس ہو گیا‘۔

سینیٹر اعتزاز احسن کا کہنا تھا کہ نواز شریف کو فوری طور مستعفی ہو جانا چاہیئے اور اس مطالبے پر تمام جماعتیں متفق ہیں۔