پاکستان

'آئندہ سالوں میں پانی کا بحران شدت اختیار کر جائے گا'

اگر پانی کےذخائر بروقت تعمیر نہ کیےگئے تو آئندہ سالوں میں ملک کو پانی کے شدید بحران کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے، احسن اقبال

حیدرآباد: وفاقی وزیر برائے ترقی و منصوبہ بندی ڈاکٹر احسن اقبال نے خبردار کیا ہے کہ موسمیاتی تبدیلی اور دیگر عنصر کے باعث ملک میں آئندہ 10 سے 15 سال میں پانی کا شدید بحران پیدا ہوسکتا ہے۔

وفاقی وزیر حیدرآباد میں پاکستان مسلم لیگ (ن) کے سینئر رہنما جمال عارف شاہ اور شاہ محمد شاہ کی جانب سے ان کے اعزاز میں منعقدہ ایک تقریب کے دوران پارٹی کے ورکرز اور میڈیا کے نمائندوں سے تفصیلی بات چیت کررہے تھے۔

انھوں نے کہا کہ 'موسمیاتی تبدیلی کی وجہ سے پاکستان دنیا کے 7 سب سے کمزور ممالک میں شامل ہوگیا ہے، اس لیے ہم اس بات کا انتظار نہیں کرسکتے کہ گلیشیئر لائن آئندہ 10 سے 15 سال میں پگھلے گی، بارش کے اوقات میں تبدیلی رونما ہوچکی ہے تو تمام اسٹیک ہولڈرز کے اتفاق رائے کے بعد انسداد قحط حکمت عملی کے تحت ملک میں پانی کے ذخائر فوری تعمیر کیے جانے چاہئیں'۔

دیامر بھاشا ڈیم کی تعمیر اور اس میں 6 ایم اے ایف پانی ذخیرہ کرنے کی سہولت کا حوالہ دیتے ہوئے احسن اقبال کا کہنا تھا کہ وفاقی حکومت اس پر بھرپور کام کررہی ہے، 'اس کے علاوہ پاکستان اپنے دریاؤں کو سفارت کاری کے ذریعے محفوظ کررہا ہے، دنیا کی کوئی طاقت ہمارے پانی کو چوری نہیں کرسکتی'۔

ڈاکٹر احسن اقبال کا کہنا تھا کہ انڈس واٹر ٹریٹی (سندھ طاس معاہدے) کے علاوہ بھی بین الاقوامی ثالثوں کے ساتھ ہمارے متعدد معاہدے موجود ہیں جن میں عالمی برادری نے ضمانت دی تھی۔

ان کا کہنا تھا کہ پاکستان اپنے پانی کے ایک ایک قطرے کیلئے ہر فورم پر دفاع کا حق رکھتا ہے۔

مسلم لیگ ن کے رہنما نے زور دیا کہ پاک-چین اقتصادی راہداری منصوبے کا سہرا ان کی پارٹی کے سر جانا چاہیے، ساتھ ہی انھوں نے دعویٰ کرنے والوں کو اس حوالے سے ایک دستاویز کی کاپی پیش کرنے کو بھی کہا۔

انھوں نے کہا کہ 'میں 2013 میں دونوں وزرائےاعظم کی موجودگی میں دستخط کیے جانے والے معاہدے کی کاپی پیش کرنے کیلئے تیار ہوں'۔

وفاقی وزیر کا کہنا تھا کہ کیٹی بندر منصوبے کو سی پیک کا حصہ بنادیا گیا ہے اس کے علاوہ تھر کول اور کراچی سرکلر ریلوے منصوبے کو بھی اس میں شامل کردیا گیا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ وزیراعظم نواز شریف نے حیدرآباد میں ایک یونیورسٹی قائم کرنے کا اعلان کیا تھا اور وفاقی حکومت اس کی کلاسز ستمبر میں شروع کرانے کا ارادہ رکھتی ہے۔

وفاقی وزیر نے بتایا کہ وفاقی حکومت وزیراعلیٰ مراد علی شاہ کے ساتھ قریبی تعلقات کی موجودگی میں کام کررہی ہے، انھوں نے مراد علی شاہ کو 'ماہر اور تعلیم یافتہ رہنما' قرار دیا۔

ان کا کہنا تھا کہ 'ہم ایسی کسی چیز کی اجازت نہیں دیں گے جو دو حکومتوں کے درمیان غلط فہمیاں پیدا کریں'۔

ان کا کہنا تھا کہ وفاقی حکومت نے کبھی کسی صوبائی حکومت کے وسائل کی منتقلی نہیں روکی اور ایسا مستقبل میں بھی نہیں ہوگا۔

اس سے قبل جامشورو کی سندھ یونیورسٹی میں 'سی پیک: سیاسی، معاشی اور سماجی نقطہ نظر' کے عنوان سے 3 روزہ بین الاقومی کانفرنس کی افتتاحی تقریب سے خطاب کے دوران وفاقی وزیر کا کہنا تھا کہ اقتصادی راہداری سے خوشحالی آئے گی، بے روزگاری اور شدت پسندی کو ختم کرنے میں مدد ملے گی اور غربت کا خاتمہ ہوگا۔

ان کا کہنا تھا کہ 'سی پیک فوجی یا سیکیورٹی معاہدہ نہیں ہے؛ یہ معاشی ترقی اور خوشحالی کا بڑا منصوبہ ہے'۔

ڈاکٹر احسن اقبال کا کہنا تھا کہ حکومت نے فیصلہ کیا ہے کہ جغرافیائی سیاست کے بجائے جیو اکنامکس پر توجہ دی جائے کیونکہ 'پاکستان، جنوبی ایشیا میں چین اور وسطی ایشا کے قریب ایک مثالی محل وقوع پر قائم ہے جس کی آبادی 3 ارب ہے'۔

انھوں نے کہا کہ اقتصادی راہداری منصوبہ توانائی کی پیداوار کے مسائل کو بھی حل کرے گا کیونکہ 40 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری میں سے 35 ارب ڈالر توانائی کے شعبے پر خرچ کیے جائیں گے۔

ان کا کہنا تھا کہ 'ہمیں ان سہولیات سے فائدہ اٹھانا چاہیے تاکہ پاکستان کی نوجوان نسل اس سے منافع حاصل کرسکے، ان کا دعویٰ تھا کہ زرعی معیشت کو صنعتی معیشت میں تبدیل کردیا گیا ہے'۔

یہ رپورٹ 19 اپریل 2017 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی