سپلیمنٹری کاز لسٹ صفحہ دوم
جسٹس شیخ عظمت کا کہنا تھا کہ فیصلہ ہم نے کرنا ہے قانون کے مطابق کریں گے، جس نے بھی شور مچانا ہے وہ مچاتا رہے۔
فیصلہ جو بھی آئے قبول کریں گے
سپریم کورٹ کی جانب سے کاز لسٹ جاری ہونے کے بعد اپنے رد عمل میں عوامی مسلم لیگ کے سربراہ شیخ رشید نے کہا کہ فیصلہ جوبھی آیا قبول کریں گے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ '20 اپریل کو انصاف جیت جائےگا، کرپشن ہارجائےگی، پرسوں کوئی کام نہیں ہوگا صرف فیصلے کا انتظار ہوگا'۔
شیخ رشید نے کہا کہ فیصلہ جو بھی آئے اس کے لیے تیار ہیں اور اس سلسلے میں کل چیئرمین تحریک انصاف عمران خان سے ملاقات کریں گے۔
واضح رہے کہ چیئرمین تحریک انصاف عمران خان بھی کہہ چکے ہیں کہ سپریم کورٹ کا فیصلہ جو بھی آئے گا وہ اسے تسلیم کریں گے۔
تحریک انصاف کے وائس چیئرمین شاہ محمود قریشی نے کہا کہ یہ ملکی تاریخ میں اہم ترین فیصلہ ہوگا۔
انہوں نے کہا کہ '57 روز کے انتظار کے بعد فیصلہ آرہا ہے اور ہم امید کرتے ہیں کہ فیصلے سے ملک کو فائدہ پہنچے گا'۔
پاکستان تحریک انصاف کے ترجمان نعیم الحق نے دعویٰ کیا کہ '20 اپریل کو وزارت عظمیٰ کے منصب سے نوازشریف جیسا کرپٹ کردار الگ کردیا جائے گا'۔
انہوں نے کہا کہ 'سپریم کورٹ کا فیصلہ حق اورسچ کی ترجمانی کرے گا، 20 اپریل کوحق کی فتح اورجھوٹ خاک آلود ہوگا اور 20 اپریل ملکی تاریخ کا سنہرا دن ثابت ہوگا'۔
پیپلزپارٹی پنجاب کے صدر قمر زمان کائرہ کا کہنا ہے کہ پانامہ کیس کے فیصلے میں بلی تھیلے سے باہر آنی چاہیئے اور وہ عوام کی خواہشات کے مطابق باہر آئے گی، ہماری خواہش ہے کہ فیصلہ عوامی توقعات کے مطابق آئے۔
وزیراعظم کی نااہلی کا سوچنے والے احمق
حکمراں جماعت پاکستان مسلم لیگ ن کی رہنما عظمیٰ بخاری نے ڈان نیوز کے پروگرام نیوز وائز میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ' وزیراعظم کی نااہلی کا سوچنے والے احمقوں کی جنت میں رہتے ہیں'۔
عظمیٰ بخاری کا مزید کہنا تھا کہ ' پاناما کیس میں وزیراعظم نواز شریف کا نام ہی نہیں لیکن بہت سے لوگوں کی خواہش ہے کہ وزیراعظم نااہل ہوجائیں'۔
ن لیگ کے ایک اور رہنما طلال چوہدری نے اپنے رد عمل میں استفسار کیا کہ 'وزیراعظم کے خلاف فیصلہ کیوں آئے گا؟'
طلال چوہدری نے کہا کہ وزیراعظم نواز شریف نے استثنیٰ حاصل ہونے کے باوجود خود کوعدالت کے سامنے پیش کیا۔
انہوں نے کہا کہ 'جس شخص کا نام پاناما پیپرز میں نہیں اس کے خلاف فیصلہ آنے کاامکان نہیں'۔
سخت سیکیورٹی انتظامات
20 اپریل کو پاناما کیس کے فیصلے کی نسبت سے سپریم کورٹ میں تعینات سیکیورٹی اہلکاروں کو خصوصی ہدایات جاری کردی گئیں۔
سپریم کورٹ کے ترجمان کے مطابق کمرہ عدالت میں موبائل فون لے جانا منع ہوگا، کمرہ عدالت میں داخل ہونے سے پہلے جامع تلاشی لی جائے گی۔
کمرہ عدالت میں فیصلہ سننے کے خواہش مند افراد کو سپریم کورٹ سے جاری کردہ خصوصی پاس حاصل کرنے ہوں گے، ایس پی سپریم کورٹ سے سیکیورٹی پاس کے لیے رابطہ کیا جاسکتا ہے۔
ترجمان کے مطابق مقدمے کے فریقین، ایڈووکیٹس اور صحافیوں کو پاسز حاصل کرنے کی ضرورت نہیں ہوگی۔
یاد رہے کہ سپریم کورٹ کے سینئر جج جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں بننے والا پانچ رکنی نیا لارجر بینچ 4 جنوری سے پاناما کیس پر درخواستوں کی سماعت کررہا تھا، بینچ کے دیگر ارکان میں جسٹس اعجاز افضل خان، جسٹس گلزار احمد، جسٹس شیخ عظمت سعید اور جسٹس اعجاز الحسن شامل ہیں۔
31 جنوری کو ہونے والی سماعت کے بعد لارجر بینچ کے رکن جسٹس شیخ عظمت سعید کو دل کی تکلیف کے باعث سماعت ملتوی کردی گئی تھی جس کا دوبارہ سے آغاز پندرہ روز بعد (15 فروری) سے ہوا تھا۔
پاکستان تحریک انصاف، جماعت اسلامی، عوامی مسلم لیگ، جمہوری وطن پارٹی اور طارق اسد ایڈووکیٹ نے پاناما لیکس کی تحقیقات کے لیے سپریم کورٹ میں آئینی درخواستیں دائر کی تھیں۔
سپریم کورٹ نے 20 اکتوبر 2016 کو وزیراعظم کے خلاف دائر درخواستوں پر وزیراعظم نواز شریف، وزیر خزانہ اسحٰق ڈار، وزیراعظم کی صاحبزادی مریم نواز، داماد کیپٹن (ر) صفدر، بیٹوں حسن نواز، حسین نواز، ڈی جی فیڈرل انویسٹی گیشن ایجنسی (ایف آئی اے)، چیئرمین فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) اور اٹارنی جنرل سمیت تمام فریقین کو نوٹس جاری کرتے ہوئے کیس کی سماعت 2 ہفتوں کے لیے ملتوی کردی تھی، بعد ازاں اس کی سماعت کے لیے یکم نومبر کی تاریخ مقرر کی گئی تھی۔
گذشتہ سال اپریل میں بیرون ملک ٹیکس کے حوالے سے کام کرنے والی پاناما کی مشہور لا فرم موزیک فانسیکا کی افشا ہونے والی انتہائی خفیہ دستاویزات سے پاکستان سمیت دنیا کی کئی طاقت ور اور سیاسی شخصیات کے 'آف شور' مالی معاملات عیاں ہو گئے تھے۔
پاناما لیکس میں بتایا گیا تھا کہ کس طرح دنیا بھر کے امیر اور طاقت ور لوگ اپنی دولت چھپانے اور ٹیکس سے بچنے کے لیے بیرون ملک اثاثے بناتے ہیں۔
صحافیوں کی بین الاقوامی تنظیم انٹرنیشنل کنسورشیم آف انویسٹیگٹیو جرنلسٹس (International Consortium of Investigative Journalists) کی ویب سائٹ پر جاری ہونے والا یہ ڈیٹا ایک کروڑ 15 لاکھ دستاویزات پر مشتمل تھا جس میں درجنوں سابق اور موجودہ سربراہان مملکت، کاروباری شخصیات، مجرموں، مشہور شخصیات اور کھلاڑیوں کی 'آف شور' کمپنیوں کا ریکارڈ سامنے آیا تھا۔
ان دستاویزات میں روس کے ولادی میر پوٹن، سعودی عرب کے فرمانروا، آئس لینڈ کے وزیراعظم، شامی صدر اور پاکستان کے وزیراعظم نواز شریف سمیت چین، ملائیشیا، ارجنٹائن اور یوکرائن کے اہم رہنماؤں سمیت 140 سیاستدانوں اور عوامی افسران کے نام شامل تھے۔