کراچی کے سرسبز پارک لالچ اور کاروبار کی نذر
کراچی کے سب سے بڑے عوامی پارک باغ ابن قاسم پر جمعہ (14 اپریل) کو سورج کی کرنوں کی مانند چمکتے بحریہ ٹاؤن کے سنہرے نشان سے مزین 15 افراد کی گنجائش کا حامل سیاہ ہیلی کاپٹر اترا، گردوغبار کا ایک بڑا جھونکا پارک کے ویران حصے کی طرف غائب ہوگیا اور اندر سے رئیل اسٹیٹ ٹائیکون، بحریہ ٹاؤن لمیٹڈ کے چیف ایگزیکٹیو افسر (سی ای او) ملک ریاض نمودار ہوئے، جو کسی زمانے میں ملٹری انجینئرنگ سروسز کے ٹھیکیدار ہوا کرتے تھے، ان کے ساتھ ان کا بیٹا، داماد اور بحریہ ٹاؤن کے چند ملازمین بھی تھے۔
ملک ریاض سے ملاقات میں متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) پاکستان کے سربراہ فاروق ستار اور میئر کراچی وسیم اختر بھی موجود تھے، جہاں اس عوامی پارک کو بحریہ ٹاؤن کے حوالے کرنے کے خلاف دائر پٹیشن کے معاملے پر ایک ملاقات ہونی تھی۔
130 ایکٹر پر محیط باغ ابن قاسم آج اپنی پرانی عظمت کا ایک عکس ہے، روزانہ 60 سے 100 عوامی بسیں، جو پورے کراچی سے ہزاروں لوگوں کو کلفٹن میں اس پارک کے دروازے تک پہنچاتی ہیں، غائب تھیں جبکہ پارک کے احاطے میں اُگی ہوئی گھاس بھی کب کی سوکھ چکی تھی۔
4 برس قبل بھی جب باغ ابن قاسم، کراچی میٹروپولیٹن کارپوریشن (کے ایم سی) کے زیر انتظام تھا تو یہاں خوب صورت گھاس موجود تھی، پھولوں کی کیاریاں تھیں اور پتھروں کی بنی ہوئی نشستیں لگی ہوئی تھیں، اس پارک کے اچھے دن اُس وقت تبدیل ہوئے جب پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کی حکومت نے 2013 میں سندھ لوکل گورنمنٹ ایکٹ کے ذریعے مقامی حکومت کے کئی اختیارات کو اپنے ہاتھ میں لیا اور کے ایم سی کے فنڈز کے ذرائع کو سب سے زیادہ نظر انداز کیا گیا۔
کے ایم سی کے سابق عہدیدار کا کہنا تھا، 'سندھ حکومت نے ایسے حالات پیدا کیے جہاں پارٹی قیادت اور ان کے قریبی کاروباری ساتھی شہر کے مفاد کو پس پشت ڈالتے ہوئے بڑی تعداد میں پیسہ بنا سکیں'۔
مزید پڑھیں: کراچی کا باغ ابنِ قاسم بحریہ ٹاؤن کے حوالے
انھوں نے بتایا، 'مثال کے طور پر 2016 سے قبل باغ ابن قاسم کے انتظام کا ٹھیکہ لیاری سے تعلق رکھنے والے ایک رکن قومی اسمبلی کی کمپنی کے پاس تھا تو آپ دیکھ سکتے ہیں کہ اس کا کیا بنا ہوگا'۔
واضح رہے کہ پیپلز پارٹی کی حکومت نے رواں برس 30 مارچ کو ایک نوٹیفکیشن کے ذریعے باغ ابن قاسم کو 'بہتری کی غرض' سے بحریہ ٹاؤن کے 'حوالے' کردیا تھا۔
معاہدے کے مطابق 'بحریہ ٹاؤن نے تزئین وآرائش، خوب صورتی اور تعمیراتی کام کی بہتری کے لیے اپنے خرچے پر 10 سال کے لیے پارک کا انتظام سنبھالا'۔
تاہم سندھ ہائی کورٹ نے رواں ماہ 3 اپریل کو میئر کراچی وسیم اختر کی جانب سے دائر کی گئی پٹیشن پر سماعت کرتے ہوئے اس نوٹیفکیشن کو معطل کردیا اور عدالت نے دنوں فریقین کو ہدایات دیں کہ وہ اسی دن اپنے جوابات داخل کرادیں۔