بچوں کی نازیبا ویڈیوز کا معاملہ اور متاثرین کی ’خاموشی‘
لاہور: سرگودھا میں بچوں کی نازیبا ویڈیوز اور تصاویر بنائے جانے کے معاملے پر تحقیقات اُس وقت متاثر ہوئیں جب مبینہ طور پر اس گھناؤنے جرم کا نشانہ بننے والے بچوں اور ان کے والدین نے مرکزی ملزم کے خلاف بیان ریکارڈ کرانے سے انکار کردیا۔
لاہور میں وفاقی تحقیقاتی ایجنسی (ایف آئی اے) کے ایک افسرکے مطابق ایجنسی سے بات کرنے والے ایک بچے کا کہنا تھا، ’میں نے منٹو انکل (مرکزی ملزم سعادت امین کی عرفیت) کے ساتھ کام کیا لیکن جن ویڈیوز اور تصاویر کے بارے میں آپ بات کررہے ہیں، اس میں، میں موجود نہیں‘۔
14 سالہ اس بچے کا مزید کہنا تھا، ’خدارا مجھ سے دوبارہ رابطہ نہ کریں، مجھے اس معاملے میں شامل نہ کریں، اس کے بارے میں بات کرنا مجھے شرمندہ کرتا ہے اور میرا اس سب سے کوئی لینا دینا نہیں‘۔
ایک اور بچے کے والد نے اس بات سے صاف انکار کردیا کہ وہ 45 سالہ سعادت امین کو جانتے ہیں، ان کا کہنا تھا ’میں نہیں جانتا یہ شخص کون ہے اور یہ کیا کام کرتا ہے'۔
جب انھیں بتایا گیا کہ ان کے بیٹے کی قابل اعتراض تصاویر امین کے پاس سے برآمد ہوئی ہیں تو انھوں نے جواب دیا، 'وہ تصاویر جعلی ہیں؟ آپ ہمارے لیے کیوں مسائل پیدا کرنا چاہ رہے ہیں؟ کیا آپ یہ چاہتے ہیں کہ ہم منہ چھپا کر اپنے آبائی علاقے سے چلے جائیں'۔
ایف آئی اے کو دیگر بچوں کی جانب سے بھی کچھ اسی قسم کا ردعمل موصول ہوا، ملزم پر الزام ہے کہ اس نے بہت سے بچوں کو استعمال کیا۔
مزید پڑھیں: سرگودھا: بچوں کی غیراخلاقی فلمیں بنانے والا ملزم گرفتار
تفتیش کاروں نے اسے مجبور کیا کہ وہ ان میں سے کچھ کے ایڈریس اور ٹیلی فون نمبرز بتائے، لیکن متاثرہ بچوں اور ان کے اہلخانہ کی جانب سے امین کے خلاف کیس کو آگے بڑھانے سے انکار سے تفتیش کے عمل کو دھچکا لگا۔
ایف آئی اے نے امین کو گذشتہ ماہ سرگودھا سے گرفتار کیا تھا، جس کے بارے میں اطلاعات اسلام آباد میں واقع ناروے کے سفارت خانے سے موصول ہوئیں، سفارت خانے نے تحریری طور پر حکومت کو آگاہ کیا تھا کہ ناروے پولیس نے جین لنڈ اسٹورم نامی ایک شخص کوگرفتار کیا ہے، جس پر الزام ہے کہ وہ بچوں کی قابل اعتراض ویڈیوز بناتا ہے اور امین پاکستان میں اس کا معاون ہوسکتا ہے، پیر (17 اپریل) کو ایف آئی اے نے دوسری مرتبہ ملزم کا 4 روزہ جسمانی ریمانڈ حاصل کیا۔
ایک ایف آئی اے عہدیدار نے بتایا، 'متاثرہ بچوں اور ان کے والدین کا ردعمل سمجھ سے باہر ہے'۔
انھوں نے بتایا، 'ایف آئی اے ان متاثرین پر ملزم کے خلاف بیان دینے کے لیے دباؤ نہیں ڈال سکتی، لیکن ہمیں امید پے کہ ان میں سے ہی کوئی آخر کار اس خاموشی کو توڑ دے گا'۔
مذکورہ عہدیدار کا مزید کہنا تھا، 'شواہد موجود نہ ہونے سے ملزم کو فائدہ پہنچ سکتا ہے، لیکن اس کیس میں مدعی ایف آئی اے ہے اور وہ سچائی تک پہنچنے کے لیے اپنی ہر ممکن کوشش کرے گی'۔
واضح رہے کہ ایف آئی اے نے سعادت امین کے خلاف نئے سائبر کرائم لاء کی سیکشن 20 ،21 اور 22 کے تحت مقدمہ درج کیا، جن کے تحت 15 سال قید اور 70 کروڑ روپے کا جرمانہ ہوسکتا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: قصور: 'بچوں کے ساتھ میرے سامنے زیادتی کی گئی'
ایک تفتیش کار نے ڈان کو بتایا، 'جیسا کہ تحقیقات جاری ہیں، یہ بات واضح ہوئی ہے کہ ملزم مبینہ طور پر چار بچوں کے نام پر 'چار جعلی فیس بک اکاؤنٹ' استعمال کر رہا تھا، ان کاؤنٹس کے ذریعے وہ یورپین اور روسی ویب سائٹس پر جاتا اور قابل اعتراض ویڈیوز فراہم کرنے کے عوض معاوضے کا مطالبہ کرتا، جو سرگودھا میں اس کے گھر میں تیار ہوتی تھیں'۔
انھوں نے مزید بتایا، 'لنڈ اسٹورم اور دیگر سے ویسٹرن یونین طریقہ کار کے تحت ملزم نے 2007 اور 2016 کے دوران بنائی گئی قابل اعتراض ویڈیوز اور تصاویر کے عوض 38 ہزار ڈالرز حاصل کیے'، ساتھ ہی ان کا کہنا تھا کہ ہم مزید معلومات بھی حاصل کر رہے ہیں کہ اس نے اور کن ذرئع یا طریقوں سے پیسہ کمایا'۔
دوسری جانب ایف آئی اے نے ملزم کا ایک اور لیپ ٹاپ بھی قبضے میں لے لیا، جس میں سے ڈیٹا حاصل کیا جارہا ہے۔
ایف آئی اے کے مطابق ملزم نے بنیادی طور پر روسی، برطانوی، ڈچ اور بنگلہ دیشی پورن ویب سائٹس کی ہیکنگ کے ذریعے پیسہ بنایا اور اس کے ساتھ ساتھ وہ مقامی بچوں کی بھی قابل اعتراض تصاویر بناتا رہا، جنھیں اُس نے کمپیوٹر کی تعلیم دینے کے عوض بے وقوف بنایا اور انھیں ماہانہ کچھ پیسے وظیفے کے طور پر دیتا رہا۔
واضح رہے کہ ملزم کے ایک لیپ ٹاپ سے تقریباً 65 ہزار قابل اعتراض ویڈیو کلپس برآمد کی گئیں۔
یہ خبر 18 اپریل 2017 کے ڈان اخبار میں شائع ہوئی