پاکستان

یونیورسٹی انتظامیہ نے مجھے مشعال کےخلاف گواہی دینے کا کہا،ملزم

13 اپریل کو انتظامیہ نے مجھے چیئرمین آفس بلایا اور مشعال کے خلاف توہین مذہب پر تقریر کرنے کا کہا، ملزم وجاہت
|

عبدالولی خان یونیورسٹی طالب علم مشعال خان قتل کیس کے ملزم نے دعویٰ کیا ہے کہ اسے یونیورسٹی انتظامیہ نے مشعال کے خلاف گواہی دینے کا کہا تھا۔

اپنے بیان میں ملزم کا کہنا تھا کہ ’13 اپریل کو انتظامیہ نے مجھے چیئرمین آفس بلایا اور مشعال کے خلاف توہین مذہب پر تقریر کرنے کا کہا، اگر مجھے اس سازش کا پتہ ہوتا تو یونیورسٹی ہی نہ آتا۔‘

وجاہت نے کہا کہ ’میں نے لوگوں کو بتایا میں نے مشعال، عبداللہ اور زبیر کو توہین مذہب اور توہین رسالت کرتے سنا، جبکہ فہیم عالم نے میری بات کی سچائی کی گواہی دی۔‘

یہ بھی پڑھیں: مردان یونیورسٹی میں گستاخی کے شواہد نہیں ملے، آئی جی کے پی

ملزم کا مزید کہنا تھا کہ ’مشعال پر تشدد کے وقت لوگ خاموش تھے لیکن سیکیورٹی انچارج بلال بخش نے کہا کہ مشعال اور اس کے ساتھیوں کی طرف داری کرنے والوں سے سختی سے نمٹا جائے گا، جبکہ سیکورٹی انچارج کا کہنا تھا کہ وہ مشعال کو مار دیں گے۔‘

وجاہت نے کہا کہ ’اگر میں اس وقت بیان نہ دیتا تو اکٹھے ہونے والے طلبا واپس چلے جاتے، ‏میرے بیان کے بعد طلبا مشتعل ہوگئے اور بلوہ کرکے مشعال کو قتل اور عبداللہ کو زخمی کردیا جس پر مجھے پشیمانی ہے، جبکہ مشعال اور دیگر کا معاملہ پولیس کو سونپا جانا چاہیئے تھا اور قانون کے مطابق تمام کارروائی ہونی چاہیئے تھی۔

یاد رہے کہ 13 اپریل کو مردان کی عبدالولی خان یونیورسٹی میں گستاخی کے الزام میں شعبہ ابلاغ عامہ کے طالب علم مشعال خان کو تشدد کے بعد قتل کردیا گیا تھا۔

مشعال کی پوسٹ مارٹم رپورٹ میں نشاہدہی کی گئی تھی کہ موت گولی لگنے سے ہوئی تھی۔

مزید پڑھیں: مجھ سے مشعال پر گستاخی کا الزام لگانے کو کہا گیا، زخمی طالبعلم عبداللہ

وزیراعظم پاکستان نواز شریف سمیت دیگر رہنماوں نے اس قتل کی مذمت کی تھی جبکہ چیف جسٹس آف پاکستان میاں ثاقب نثار نے واقعے کا ازخود نوٹس لیا تھا۔

گزشتہ روز مردان پولیس نے واقعے کی ایف آئی آر میں نامزد مزید 7 ملزمان کو گرفتار کرکے انسداد دہشت گردی عدالت سے ایک روزہ جسمانی ریمانڈ حاصل کیا تھا۔

پولیس نے تھانہ شیخ ملتون میں درج ایف آئی آر میں 20 ملزمان کو نامزد کیا تھا، جس میں دہشت گردی، قتل اور اقدام قتل سمیت 7 دفعات شامل کی گئی تھیں۔

گستاخی کے الزام پر تشدد کا نشانہ بننے والے دوسرے طالب علم عبداللہ نے عدالت میں اپنا بیان ریکارڈ کراتے ہوئے کہا تھا کہ '13اپریل کو ان کے ایک دوست عباس نے 11 بجے فون کرکے ڈیپارٹمنٹ آنے کو کہا تھا، جہاں مدثربشیر سمیت کئی طلبا جمع تھے'۔

یہ بھی پڑھیں: مشعال قتل کیس: مزید 7 ملزمان کا ایک روزہ جسمانی ریمانڈ

الزامات کی تفصیل بتاتے ہوئے انھوں نے کہا کہ 'طلبا نے میرے اوپر گستاخی کاالزام لگایا جس کی میں نے تردید کی جبکہ ان کے سامنے کلمہ طیبہ پڑھ کر اردو اور پشتو دونوں زبانوں میں ترجمہ بھی کیا لیکن انھوں نےمجھے زدوکوب کیا اور زبردستی مشعال خان پر گستاخی کا الزام لگانے کامطالبہ کیا'۔

انھوں نے کہا، 'میں نے واضح طور پر بتادیا کہ مشعال نے کوئی گستاخی نہیں کی اورنہ ہی گستاخی کرسکتا ہے جس پر وہ مشتعل ہوگئے'۔