پاکستان

'نورین لغاری کو سوشل میڈیا پر شدت پسند بنایا گیا'

میڈیکل کی طالبہ نورین سوشل میڈیا کے ذریعے عسکریت پسندوں سے رابطے میں تھی اور تین ہفتے قبل ہی لاہور آئی تھی، ذرائع

صوبہ پنجاب کے دارالحکومت لاہور میں قانون نافذ کرنے والوں کی کارروائی کے دوران حراست میں لی جانے والی میڈیکل کی طالبہ نورین لغاری نے فروری میں اپنا گھر چھوڑنے کے بعد مبینہ طور پر شدت پسند تنظیم داعش کا حصہ بننے کے لیے شام کا رخ کیا۔

ذرائع کے مطابق، لیاقت میڈیکل اینڈ ہیلتھ سائنسز کی طالبہ نورین لغاری تین ہفتے قبل لاہور واپس آئی تھی، جس کے بعد سے سیکیورٹی اہلکاروں کی جانب سے انہیں ٹریک کیا جارہا تھا۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ مذکورہ طالبہ نے شام میں ہتھیاروں کے استعمال کی تربیت بھی حاصل کی۔

خیال رہے کہ قانون نافذ کرنے والے اداروں نے جمعہ (14 اپریل) کی شب لاہور کے فیکٹری ایریا میں چھاپہ مار کارروائی کے دوران ایک مشتبہ دہشت گرد کو ہلاک اور اس کی اہلیہ اور ایک ساتھی کو گرفتار کرنے کا دعویٰ کیا تھا۔

پاک فوج کے شبعہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کے مطابق ہلاک ہونے والا دہشت گرد اور اس کے ساتھی شہر میں مسیحیوں کے مذہبی تہوار 'ایسٹر' کے دوران حملوں کی منصوبہ بندی کررہے تھے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق، نورین لغاری سوشل میڈیا کے ذریعے عسکریت پسندوں سے رابطے میں تھی۔

فروری میں اپنا گھر چھوڑنے کے بعد لاہور کے بیدیاں روڈ کے رہائشی علی طارق سے شادی کرنے والی نورین کا کالج کارڈ اور اس کے والد کا شناختی کارڈ سیکیورٹی اہلکاروں کو ان افراد کے ٹھکانے سے ملا جس کے بعد انہوں نے حیدرآباد میں نورین لغاری کے اہل خانہ سے رابطہ کیا۔

واضح رہے کہ پنجاب پولیس کے محکمہ انسداد دہشت گردی (سی ٹی ڈی) کے ترجمان نے دعویٰ کیا تھا کہ سی ٹی ڈی اور خفیہ ایجنسی کے اہلکاروں نے جمعے کی شب تقریباً 10 بجے کے قریب پنجاب ہاؤسنگ سوسائٹی میں سرچ آپریشن شروع کیا۔

اسی دوران علاقے کے ایک گھر سے چھاپہ مار ٹیم پر فائرنگ کی گئی جس کے بعد جوابی فائرنگ کی گئی اور مقابلہ شروع ہوگیا۔

جب فائرنگ کا سلسلہ رکا تو چھاپہ مار ٹیم گھر کے اندر داخل ہوئی اور 32 سالہ علی طارق کو مردہ پایا۔

یہ بھی پڑھیں: 'دہشتگردی کے شبے میں گرفتار لڑکی ایم بی بی ایس کی طالبہ'

دوسری جانب سندھ پولیس نے پنجاب پولیس سے رابطہ کرتے ہوئے زیر حراست خاتون کی شناخت کی تصدیق کی۔

ذرائع کا مزید کہنا تھا کہ خاتون سے دہشت گرد نیٹ ورک سے طریقہ کار اور اس سے منسلک دیگر لوگوں کی معلومات حاصل کرنے کے لیے تفتیش کا سلسلہ جاری ہے۔

ڈان سے گفتگو میں آئی جی سندھ پولیس اے ڈی خواجہ کا کہنا تھا کہ ’ہم پنجاب پولیس سے رابطے میں ہیں تاکہ ان کا باقاعدہ جواب حاصل کرسکیں جس کے بعد ہم میڈیا سے یہ معلومات شیئر کریں گے، اس حوالے سے حیدرآباد رینج کے ڈی آئی جی خادم رند سے بھی رابطہ جاری ہے‘۔

ذرائع کا یہ بھی کہنا تھا کہ ایس ایس پی حیدرآباد عرفان بلوچ نے لاہور میں سی ٹی ڈی سے رابطہ کیا ’تاہم سی ٹی ڈی حکام نے کسی بات کی تصدیق نہیں کی کیونکہ پاک فوج کا شعبہ تعلقات عامہ بھی اس معاملے کا حصہ ہے‘۔

خیال رہے کہ گذشتہ روز نورین لغاری کے بھائی محمد افضل لغاری نے میڈیا سے گفتگو میں اس بات کی تصدیق کی تھی کہ لاہور سے حراست میں لی جانے والی لڑکی اس کی بہن نورین ہی ہے۔

افضل نے اس بات کی بھی تصدیق کی کہ اس کی بہن 10 فروری 2017 کو لاپتہ ہوگئی تھی جس کی اطلاع انہوں نے پولیس کو دے دی تھی۔

افضل کا مزید کہنا تھا کہ 'پولیس نے تقریباً 6 روز بعد بتایا کہ لڑکی شدت پسند تنظیم داعش کی طرف چلی گئی ہے لیکن پہلے ہم نے اس بات کو بے بنیاد قرار دے کر مسترد کردیا کیوں کہ اس پر یقین کرنے کی ہمارے پاس کوئی وجہ یا ثبوت نہیں تھا'۔

نورین لغاری کے والد پروفیسر عبدالجبار لغاری نے ڈان نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا تھا کہ ان سے پولیس یا کسی قانون نافذ کرنے والے ادارے نے باضابطہ طور پر رابطہ نہیں کیا ہے۔

’نورین کا ذہن سوشل میڈیا کے ذریعے تبدیل کیا گیا‘

لیاقت یونیورسٹی آف میڈیکل اینڈ ہیلتھ سائنسز کے وائس چانسلر نوشاد شیخ کا کہنا ہے کہ لاہور سے حراست میں لی جانے والی طالبہ نورین لغاری طویل عرصے سے سوشل میڈیا پر ایک شخص سے رابطے میں تھی جس نے اسے ان کارروائیوں کی جانب راغب کیا۔

نوشاد شیخ کے مطابق اس لڑکے سے رابطے نے نورین کا ذہن تبدیل کیا اور انتہاپسندی کی جانب اس کے رجحان میں اضافہ ہوا۔

ڈان نیوز سے گفتگو میں وائس چانسلر نے کہا کہ نورین لغاری کے معاملے کی تحقیقات کے لیے یونیورسٹی کی جانب سے کمیٹی قائم کی جاچکی ہے تاہم یونیورسٹی میں شدت پسند ذہن رکھنے والے لوگوں کی موجودگی کے شواہد نہیں ملے۔

نورین کے حوالے سے مزید معلومات دیتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ وہ ایک شرمیلی لڑکی تھی اور پنج وقتہ نمازی تھی۔

انھوں نے مزید بتایا کہ نورین لغاری کی دو سہیلیاں ہندو بھی تھیں۔