پاکستان

ای او بی آئی کیس: دس روز میں تحقیقات مکمل کرنیکی ہدایت

سپریم کورٹ نے ای او بی آئی خورد برد کیس میں ایف آئی اے کو دس روز میں تحقیقات مکمل کر کے ملزمان کیخلاف کارروائی کا حکم۔

اسلام آباد: سپریم کورٹ نے ای او بی آئی کی جانب سے مختلف شعبوں میں سرمایہ کاری کرنے کے دوران اربوں روپے کی خورد برد کے حوالے سے ازخود نوٹس کیس میں ایف آئی اے کو کیس کی دس روز میں تحقیقات مکمل کر کے رپورٹ جمع کرانے اور کرپشن میں ملوث تمام افراد کیخلاف بلا امتیاز کارروائی کرنے کی ہدایت کی ہے۔

پیر کو چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے کیس کی سماعت کی۔

اس موقع پر ڈی جی ایف آئی اے کے علاوہ سیکریٹری ای او بی آئی، سیکریٹری ہیومن ریسورس عبدالخالق، ڈی ایچ اے کے سابق ڈائریکٹر کرنل ریٹائر طارق عدالت میں پیش ہوئے جبکہ ڈی جی ایف آئی اے اور سیکریٹری ہیومن ریسورس ای او بی آئی نے الگ الگ رپورٹس پیش کیں۔

چیف جسٹس نے ڈی جی ایف اے سے استفسار کیا کہ انہوں نے اس کیس کا نوٹس کیوں نہیں لیا؟، یہ ایک بڑا کیس ہے جس میں قومی خزانے کے اربوں روپے کی خوردبرد کی گئی۔ آپ لوگوں کے پاس معلومات ہونے کے باوجود ایکشن کیوں نہیں لیا گیا؟، اگر کہیں ملکی دولت خورد برد ہو رہی ہے توآپ آخر کس لئے ہیں؟۔

ڈی جی ایف آئی اے نے بتایا کہ ہم نے ای او بی آئی کے معاملے کا نوٹس لیا ہے، خوردبرد کے کل گیارہ معاملات ہیں جن میں سے دو میں کیس درج کرنے کے ساتھ تین افراد ڈی جی واحد خورشید ، مسماۃ ماہم مجید دختر کرنل علی اسد مرزا کو گرفتار کر لیا گیا ہے اور سابق چیئرمین ظفر گوندل کو بھی گرفتار کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

ڈی ایچ اے کے سابق ڈائریکٹرکرنل ریٹائر طارق کمال نے عدالت کو بتایا کہ 321 کنال کی یہ زمین ڈی ایچ اے نے ای اوبی آئی کو فروخت کی تھی جس کے بعد ڈی ایچ اے اور بحریہ ٹاؤن کے سربراہ ملک ریاض نے جوائنٹ ونچر کے تحت اس منصوبے کو آگے بڑھایا۔

انہوں نے بتایا کہ بے شک ای او بی آئی نے خریدی گئی زمین کی قیمت ای او بی آئی کے چیکوں کے ذریعے ادا کی لیکن بعد میں معاہدے کے تحت بحریہ ٹاؤن کو بھی مقررہ حصہ ملتا رہا کیونکہ اسی منصوبے کے تحت ڈی ایچ اے تک ایکسپریس وے بنانے کا معاہدہ بھی کیا گیا تھا۔

ان کا کہنا تھا کہ وہ ڈی ایچ اے میں ملازم تھے جہاں سے ان کو نکالا گیا اور بعد میں ان کو خطرناک نتائج کی دھمکیاں بھی دی گئیں جس پر چیف جسٹس نے سیکریٹری داخلہ، آئی جی اسلام آباد اور آئی جی پنجاب کو ہدایت کی کہ کرنل طارق کی سیکیورٹی کو یقینی بنایا جائے۔

سیکریٹری عبدالخالق نے ادارے میں خوردبرد کے حوالے سے بتایا کہ میں نے اپنی رپورٹ میں ای اوبی آئی کے 18 کیسوں کی نشاندہی کر دی ہے اور انکشاف کیا کہ لوگوں کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کیلئے ایک انوسٹمنٹ کمپنی بھی بنائی گئی تھی ادارے کی جانب سے پراپرٹی، شیئرز خریدنے اورڈیپازٹ میں کل 41 ارب کی سرمایہ کاری کی گئی۔

شیئرزکے حوالے سے عدالت کو بتایا گیا کہ شیئرز میں فارمولے کے تحت  12.26فیصد سرمایہ کاری کی گئی اور مختلف کمپنیوں کے شیئرز خریدے گئے جس سے دو مئی کو ادارے کو 5.6 ارب روپے کا منافع حاصل ہوا۔

عدالت کو بتایا گیا کہ ظفر گوندل کے بعد نئے چیئرمین کی تقرری نہیں کی گئی ہے۔

سیکریٹری ہیومن ریسورس نے بتایا کہ باقی معاملات کے بارے میں انکوائری رپورٹ  6جولائی تک عدالت کو پیش کی جائے گی اور جو بھی کیس سنگین ثابت ہوا اسے ایف آئی اے کے حوالے کر دیا جائے گا۔

چیف جسٹس نے استفسارکیا کہ زمین ڈی ایچ اے سے خریدی گئی جبکہ چیک بھی ان کے نام جاری ہوئے تو پھر ملک ریاض یا بحریہ ٹاؤن کس طرح اس کیس میں ملوث ہو سکتا ہے، جواب میں کرنل طارق کا کہنا تھا کہ یہ سارا کام ایک باقاعدہ معاہدے کے تحت ہوا۔

ڈی جی ایف آئی اے نے بتایاکہ گرفتار کیے گئے افراد میں ڈی جی واحد خورشید، مسماۃ ماہم مجید دخترکرنل علی اسد مرزا شامل ہیں جبکہ قاسم پرویز اور اقبال داؤدنے ضمانت کرالی ہے جس کے خاتمے کے بعد ان کو بھی گرفتار کر لیا جائے گا۔

عدالت نے کہا کہ ٹیکس دہندگان کے پیسے کا غلط استعمال ہوا ہے اور جس نے بھی جرم کیاہے بلاامتیاز ان کیخلاف کارروائی کی جائے گی۔

انہوں نے رجسٹرارکے ذریعے دونوں افراد کی ضمانتوں کاریکارڈ طلب کرتے ہوئے ڈی جی ایف آئی اے کو فوری طور پر کیس کی انکوائری شروع کرنے کی ہدایت کی اور کہا کہ دس روز میں تحقیقات مکمل کر کے عدالت کو رپورٹ پیش کی جائے۔

بعدازاں عدالت نے اٹارنی جنرل کو بھی معاملہ دیکھنے کی ہدایت کرتے ہوئے مزید سماعت 12 جولائی تک ملتوی کردی۔