پاکستان

174000 سے زائد 'غیر ملکیوں' کے شناختی کارڈ منسوخ

بلاک شدہ شناختی کارڈز کی تعداد 350000 کے قریب ہے اور ان میں تقریبا آدھے یقینی طور پر غیر ملکی ہیں، وفاقی وزیر داخلہ

اسلام آباد: لاکھوں قومی شناختی کارڈز کی منسوخی کے متنازع معاملے کے حوالے سے وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار نے انکشاف کیا ہے کہ 174184 ایسے افراد کے شناختی کارڈز، جن کے بارے میں تصدیق ہوچکی ہے کہ وہ غیر ملکی ہیں، منسوخ کردیا گیا ہے جبکہ دیگر بلاک کیے جانے والے شناختی کارڈ پیر کے روز 60 یوم کے لیے عارضی طور پر بحال کردیئے جائیں گے۔

جمعرات کو ایک پریس کانفرنس کے دوران وفاقی وزیر داخلہ نے شناخت کارڈز کی منسوخی کے ساتھ ساتھ دیگر مختلف معاملات پر بھی اظہار خیال کیا، جن میں سندھ میں رینجرز کے اختیارات، خانانی اینڈ کالیہ کے خلاف کیس کی تحقیقات اور آصف علی زرداری کے قریبی ساتھیوں کے لاپتہ ہونے کے معامعلات شامل ہیں۔

انھوں نے کہا کہ بلاک شدہ شناختی کارڈز کی تعداد 350000 کے قریب ہے اور ان میں تقریبا آدھے یقینی طور پر غیر ملکی ہیں۔

انھوں نے اپوزیشن کو قومی سلامتی کے معاملے پر سیاست نہ کرنے کا مشورہ دیتے ہوئے کہا کہ اس حوالے سے 'ہمارے پاس تمام دستاویزی ثبوت اور حقائق موجود ہیں'۔

چوہدری نثار کا کہنا تھا کہ جن لوگوں کے شناختی کارڈ عارضی طور پر بلاک کیے گئے ہیں انھیں اپنے پاکستانی ہونے کی تصدیق کیلئے ثبوت پیش کرنا ہوں گے۔

انھوں نے کہا کہ وہ دن چلے گئے جب چند ہزار روپے کے عوض پاکستانی شہریت مل جایا کرتی تھی، انھوں نے ساتھ ہی زور دیا کہ کسی غیر ملکی کو کمپیوٹرائز قومی شناختی کارڈ جاری کرنا جرم ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ماضی کی غلطیوں کو درست کرنے کیلئے کی جانے والی کوششوں کو نسلی رنگ نہ دیا جائے اور نشاندہی کی کہ 125000 شناختی کارڈ ایسے افراد کے بھی بلاک کیے گئے ہیں جو پختون نہیں ہیں۔

مزید پڑھیں: عبدالولی خان یونیورسٹی میں طالبعلم کی ہلاکت 'وحشیانہ قتل'

انھوں نے زور دیا کہ تمام پشتو بولنے والے پاکستانی نہیں ہیں، انھوں نے یہ بھی بتایا کہ 35 لاکھ افغان مہاجرین کو بھی پاکستان کا قومی شناختی کارڈ اور پاسپورٹ جاری کیا گیا تھا۔

وفاقی وزیر داخلہ نے بتایا کہ 3640 غیر ملکیوں نے قانونی کارروائی کے ڈر سے اپنی شہریت خود چھوڑ دی تھی جن میں 3579 افغانی، 58 بنگلہ دیشی اور ایک بھارتی، ایک عراقی اور ایک انڈونیشیا کا شہری شامل تھا۔

سندھ میں رینجرز کے اختیارات

سندھ میں رینجرز کے اختیارات کی توسیع میں تاخیر کے معاملے پر پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ اس معاملے پر وفاق کی پالیسی واضح ہے۔

انھوں نے بتایا کہ رینجرز نے کراچی میں امن کے قیام کیلئے اہم کردار ادا کیا ہے اور یہ کام جاری رہنا چاہیے۔

انھوں نے افسوس کا اظہار کیا کہ اس معاملے کو ہمیشہ اس وقت مسئلہ بنانے کی کوشش کی جاتی ہے جب رینجرز کے اختیارات کی معیاد ختم ہوجاتی ہے۔

وفاقی وزیر داخلہ نے کہا کہ ان کی وزارت، سندھ حکومت کے ساتھ رابطے میں ہے، تاہم ابھی تک اس معاملے پر نوٹس جاری نہیں کیا گیا۔

چوہدری نثار نے اس تاثر کو مسترد کیا کہ ڈاکٹر عاصم کی رہائی اور ماڈل ایان علی کا نام ای سی ایل سے نکالا جانا پاکستان مسلم لیگ (ن) اور پاکستان پیپلز پارٹی کے درمیان ہونے والی کسی ڈیل کا حصہ ہے۔

آصف علی زرداری کے 'لاپتہ' ساتھی

پی پی پی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری کے قریبی ساتھیوں کی گمشدگی پر وفاقی وزیر کا کہنا تھا کہ جبری گمشدگی حکومت کی پالیسی نہیں ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ 'اس طرح لوگوں کا اغوا غیر قانونی ہے'۔

انھوں نے نشاندہی کی کہ 2 افراد کو سندھ میں اغوا کیا گیا ہے جبکہ امن و امان کا قیام ایک صوبائی مسئلہ ہے۔

چوہدری نثار کا کہنا تھا کہ اسلام آباد میں اغوا ہونے والے آصف علی زرداری کے تیسرے ساتھی کے اغوا کی تحقیقات کی جارہی ہیں اور کچھ سراغ ملے ہیں۔

انھوں نے کہا کہ اس معاملے پر انٹر سروسز انٹیلی جنس اور انٹیلی جنس بیورو رابطے میں ہیں، اس کیس کی سماعت 24 اپریل کو عدالت میں ہوگی اور اگر اس وقت تک فرد کو بازیاب نہ کرایا جاسکا تو مذکورہ شواہد عدالت میں پیش کیے جائیں گے۔

خانانی اینڈ کالیہ منی لانڈنگ کیس کے حوالے سے وفاقی وزیر داخلہ نے کہا کہ مختلف زاویے سے اس کیس کی نئی تحقیقات کا آغاز کردیا گیا ہے اور اس حوالے سے بین الاقوامی مدد حاصل کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔

یہ رپورٹ 16 اپریل 2017 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی