نقطہ نظر

مشعال خان کے قتل پر حیرانی کیوں ہو؟

معاملات کو اس نہج تک پہنچانے میں ریاست — باالخصوص اس کے چند عناصر — کا کردار ناقابل تردید ہے۔

فرسودہ زمانوں کا وحشیانہ طرز عمل ایک کینسر کی طرح اس معاشرے میں سرایت کر چکا ہے۔ اس کا پھیلاؤ نہ صرف پسماندہ علاقوں تک محدود ہے بلکہ یہ ان جگہوں تک بھی پھیل چکا ہے جہاں لوگوں کے ذہن علم و درس سے منور ہونے چاہیئں۔

جمعرات کے روز ہونے والے مشعال خان کے قتل کی ایک ایک بھیانک تفصیل اس دہشتناک حقیقت کی عکاس ہے۔ مردان میں واقع عبدالولی خان یونیورسٹی میں زیر تعلیم 23 سالہ طالب علم کو گستاخی کے الزامات پر اس کے ساتھی طالبعلموں نے شدید تشدد کا نشانہ بنا کر قتل کر دیا۔

نوجوان لڑکے پر ہونے والے وحشیانہ تشدد کی ویڈیو فوٹیج میں دیکھا جاسکتا ہے کہ مشتعل ہجوم مذہبی نعرے بلند کرتے ہوئے اس کے برہنہ جسم پر ڈنڈے، لاتیں اور پتھر برسا رہا ہے۔ ایک دوسرے طالب علم پر بھی اسی وجہ سے حملہ کیا گیا جو بری طرح سے زخمی ہو گیا؛ کچھ پتہ نہیں کہ وہ کہاں ہے۔

مگر نیکی سمجھ کر کی جانے والی درندگی کا یہ تماشا دیکھ کر ہمیں بھلا حیرانی کیوں ہونی چاہیے؟ جو راستہ ہمیں آج مشعال کے قتل تک لایا ہے، اس راستے پر تو جگہ جگہ سنگ میل نصب ہیں جو اس منزل کی طرف اشارہ کرتے ہیں جہاں آج ہم کھڑے ہیں: 2009 میں گستاخی کے الزامات لگا کر گوجرہ میں ایک بچے سمیت آٹھ افراد زندہ جلا دیا گیا؛ 2011 میں گستاخی کی ملزمہ کا دفاع کرنے پر سلمان تاثیر کو اپنے ہی محافظ نے فائرنگ سے ہلاک کر دیا؛ مئی 2014 میں گستاخی کے ملزم کا دفاع کرنے پر وکیل راشد رحمان کو فائرنگ سے ہلاک کر دیا؛ نومبر 2014 میں ایک مشتعل ہجوم نے دو بھٹہ مزدوروں شمع اور شہزاد کو آگ میں زندہ جلا دیا تھا۔ اور یہ تو ابھی ادھوری ہی فہرست ہے، حتیٰ کے ہلاکتوں کے حوالے سے بھی۔

گستاخی کے الزامات نے کئی زندگیاں برباد کی ہیں: لوگ گھروں کو چھوڑنے پر مجبور ہو جاتے ہیں، اپنے روزگار سے محروم ہوجاتے ہیں، کبھی کبھار برسوں جیل میں سڑتے رہتے ہیں کیونکہ چند ہی وکلاء ایسے ہیں جو ان کا دفاع کرنے کی ہمت کر پاتے ہیں۔

معاملات کو اس نہج تک پہنچانے میں ریاست — باالخصوص اس کے چند عناصر — کا کردار ناقابل تردید ہے۔ انسداد انتہاپسندی کے نام پر فرسودہ باتیں دہراتے ہوئے بھی اس نے عدم برداشت کی آگ کو بڑھکایا ہے، سوچ سمجھ کر ایسا ماحول خود پیدا کر دیا ہے جہاں محض گستاخی کے الزامات پر ہی مشتعل ہجوم انصاف کرنے کے لیے بے تاب ہوجاتے ہیں، اور جہاں رہائی کی اپیلوں کو بھی گستاخی کے تحفظ میں شمار کر لیا جاتا ہے۔

یہ ڈیموکلز کی وہ تیز دھار تلوار ہے جو بڑی آسانی سے ریاست کے منظور کردہ بیانیے پر سوال اٹھانے یا اس پر اعتراض کرنے والے کو خاموش کرنے کے لیے استعمال کی جا سکتی ہے۔ اور اگر اس دوران معصوم افراد کو بھی مرنا پڑے تو بھی کوئی بات نہیں۔

مگر، جہاں قانون کو مشعال خان کے قتل میں ملوث افراد کو کیفر کردار تک پہنچانا چاہیے، وہاں اس ملک کے معقول ذہنوں کو چاہیے کہ وہ مذہبی جذبات سے کھیلنے والوں کے خلاف آوازیں بلند کریں۔

عمران خان، جن کی جماعت خیبر پختونخواہ میں حکمران ہے، نے مشعال خان پر وحشیانہ تشدد کی بالکل درست انداز میں مذمت کی، جس میں انہوں نے ’جنگل کے قانون’ کو مسترد کرنے کا عہد کیا۔ شرمناک بات یہ ہے کہ اب تک کہ صرف چند گنے چنے سیاستدانوں نے ایسا واضح مؤقف اپنایا ہے، جن میں عمران خان بھی شامل ہیں۔

حتیٰ کہ زیادہ تر ٹی وی چینلز، جو کہ ویسے تو فضول گوئی کے عادی ہیں، نے بڑی احتیاط سے سانحے کی جڑ میں موجود اصل مسائل کو نظر انداز کرتے ہوئے مشعال خان کے قتل کو سطحی انداز میں کور کیا ہے۔ جب تک ان مسائل پر بحث نہیں ہوتی اور سماج میں موجود تضادات کو سمجھا نہیں جاتا، تب تک ہم بدترین اور خوف میں گھرے حالات کی جانب گامزن رہیں گے۔

یہ اداریہ 15 اپریل 2017 کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔

انگلش میں پڑھیں۔

اداریہ