پاکستان

’مشرق وسطیٰ سے متعلق غیرجانبدارانہ مؤقف برقرار‘

پاکستان کس ایک جانب جانے کے بجائے شام میں جاری تنازعے کا سیاسی حل چاہتا ہے، مشیر قومی سلامتی

کراچی: وزیر اعظم کے مشیر برائے قومی سلامتی لیفٹیننٹ جنرل (ریٹائرڈ) ناصر خان جنجوعہ کا کہنا ہے کہ پاکستان مشرق وسطیٰ اور بالخصوص شام سے متعلق اپنے غیرجانبدارانہ مؤقف کو برقرار رکھے گا۔

پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف انٹرنیشنل افیئرز (پی آئی آئی اے) کے اراکین سے ’پاکستان کی سیکیورٹی صورتحال اور مستقبل کی منصوبہ بندی‘ کے موضوع پر اظہار خیال کرتے ہوئے مشیر قومی سلامتی نے کہا کہ ’پاکستان کس ایک جانب جانے کے بجائے شام میں جاری تنازعے کا سیاسی حل چاہتا ہے‘۔

پی آئی آئی اے کی لائبریری میں ہونے والی اس تقریب میں سفراء، غیر ملکی شخصیات، سابق جج صاحبان سمیت بڑی تعداد میں لوگ شریک تھے۔

پاک بھارت تعلقات پر گفتگو کرتے ہوئے ناصر خان جنجوعہ کا کہنا تھا کہ دونوں ممالک ہمیشہ دشمن نہیں رہ سکتے، ’دونوں ممالک کو آپس میں مل جل کر، حالیہ کشیدگی کو کم کرنا ہوگا‘۔

پاکستان کی سیکیورٹی صورتحال پر جنرل جنجوعہ نے کہا کہ پاکستان کو مسلم اکثریتی جوہری ملک کے طور پر دیکھا جاتا ہے جسے انتہاپسندی کا سامنا ہے جبکہ یہ افغانستان میں طالبان اور حقانی نیٹ ورک کی حمایت میں مصروف ہے‘۔

انہوں نے واضح کیا کہ ’پاکستان کا افغانستان میں ہونے والی سویت جنگ سے کوئی لینا دینا نہیں تھا اور پاکستان نے صرف اپنی خودمختاری کو بچانے کی کوشش کی‘۔

مشیر سلامتی امور کے مطابق ’جہاد سے متعلق ہمارے نظریے کو ایسے مدرسے کھولنے اور ان کو فنڈز دینے کے لیے استعمال کیا گیا جہاں دہشت گردی کی افزائش کی جاتی ہے‘۔

ان کا کہنا تھا کہ سویت یونین کی علیحدگی اور افغانستان میں چھوڑ دی جانے والی جنگ سے افغانستان میں سیاسی افراتفری اور انتشار پھیلا، اگر اس وقت پاکستان افغانستان کا ساتھ نہ دیتا ہے تو کیا آج افغانستان موجود ہوتا، اسی طرح اگر پاکستان نے امریکا کی حمایت نہ کی ہوتی اور سابق سویت یونین کو تجارتی راہداری کی پیشکش نہ کی ہوتی تو کیا امریکا آج واحد سوپر پاور ہوتا؟‘۔

افغانستان میں نامکمل چھوڑ دی جانے والی جنگ پر مزید بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ’طالبان ہمیں امریکا اور اس کے اتحادیوں کا ایجنٹ سمجھتے ہیں اور ہمیں دونوں صورتوں میں نقصان اٹھانا پڑ رہا ہے، اگر ہم افغان طالبان کے ساتھ کھڑے ہیں تو اب پاکستانی طالبان ہم سے جنگ کیوں کررہے ہیں؟‘۔

آپریشن ضرب عضب کے حوالے سے مشیر قومی سلامتی کا کہنا تھا کہ ’ہم نے 2013 میں بہت جانی نقصان دیکھا، شمالی وزیرستان اور خیبر ایجنسی عسکریت پسندوں کے کنٹرول میں رہے، 2008 سے 2013 کے درمیان متعدد آپریشن کیے گئے تاہم عسکریت پسندوں جس کے بعد 2014 میں ضرب عضب کا آغاز ہوا۔

کراچی سے متعلق بات کرتے ہوئے ناصر خان جنجوعہ کا کہنا تھا کہ شہر میں رینجرز کی تعیناتی کا مقصد ٹارگٹ کلنگز، دہشت گردی، بھتہ خوری اور اغواء برائے تاوان کے واقعات کو کنٹرول کرنا تھا۔

انہوں نے کہا کہ کراچی کو دنیا کا چھٹا سب سے پرتشدد شہر سمجھا جاتا تھا، تاہم ستمبر 2013 میں شروع ہونے والے آپریشن کے بعد سے شہر 46ویں درجے پر آگیا ہے۔

اس سوال کے جواب میں کہ ناراض بلوچوں کے ساتھ امن مذاکرات کی راہ میں حائل لاپتہ افراد کے معاملے میں کتنی حقیقت ہے ، پر مشیر قومی سلامتی کا کہنا تھا کہ یہ مکلمل حقیقت نہیں ہے۔

کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے بارے میں ناصر خان جنجوعہ نے کہا کہ پاکستان اور افغانستان دونوں اس فساد سے نمٹنے کے لیے سیاسی، سفارتی، اور فوجی فریم ورک پر کام کرنے کے لیے رضامند ہوچکے ہیں۔


یہ خبر 15 اپریل 2017 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی۔