وہ وقت جب میرے باس نے مجھے جنسی طور پر ہراساں کیا
“منٹو کا یہ دلچسپ جملہ پڑھیں"، میرے پچھلے دفاتر میں سے ایک میں میرے پرانے باس نے اپنا اسمارٹ فون میری جانب بڑھاتے ہوئے کہا۔
میں میرے باس کی ہوس پرست فطرت اور سعادت حسن منٹو دونوں ہی سے واقف تھی، چنانچہ میں نے وہ پڑھنے سے انکار کر دیا جو وہ مجھے پڑھانا چاہتے تھے۔
انہوں نے اصرار کرتے ہوئے کہا، "کیوں؟ پڑھیں تو سہی۔"
مگر میں نے بھی انکار کر دیا، "سر، میں نہیں پڑھنا چاہتی۔"
جیسے ہی میں نے سختی سے 'ناں' کہا، تو انہوں نے جلدی جلدی میں وہ الفاظ دہرا دیے جو وہ مجھے پڑھانا چاہتے تھے: "بیٹی کوئی پیدا کرنا نہیں چاہتا، لیکن بستر پر سارے مرد عورت چاہتے ہیں۔"
ان کی اس بے شرم ڈھٹائی پر حیرت اور غصے کے ملے جلے جذبات نے مجھے آ لیا، مگر مجھے انہیں جواب دینے کے لیے مناسب الفاظ نہ مل پائے، جس کا قلق مجھے ساری زندگی رہے گا۔ چنانچہ میں صرف ان کی جانب ناپسندیدگی سے دیکھ سکی، جسے دیکھتے ہوئے وہ فوراً دفتر سے یہ کہتے ہوئے نکل گئے کہ انہیں ظہر کی نماز کے لیے دیر ہو رہی تھی۔
یہ دوسری دفعہ تھی جب انہوں نے ہماری بات چیت میں لکیر پار کی تھی۔ پہلی دفعہ تو میں نے انہیں شک کا فائدہ دیا تھا، یہ سوچتے ہوئے کہ شاید انہوں نے روانی میں ایسی بات کہہ دی ہو، مگر اب کی بار مجھے ان کی نیت کا پورا یقین تھا۔
کام کی جگہوں پر خواتین اور مردوں کے دوران اس طرح کی گفتگو عام ہے۔ کبھی کبھی یہ گفتگو خواتین کی رضامندی سے ہوتی ہے، مگر زیادہ تر مرد سپروائزر اور ساتھی اپنے نازیبا جملے اور آراء خواتین پر تھوپتے نظر آتے ہیں۔
میرے باس کی طرح کے مردوں کے نزدیک خواتین کو ہراساں کرنا ایک سستی تفریح ہے۔ ایسا کرتے ہوئے انہیں بالکل بھی انداز نہیں ہوتا کہ گھروں سے نکل کر کام کرنے اور کریئر بنانے والی خواتین ان ہی کے جیسے گھرانوں سے تعلق رکھتی ہیں۔
اگر میں نے اسی وقت انہیں بے عزت کیا ہوتا اور ان کے خلاف کمپنی میں درخواست دی ہوتی تو انہیں مزہ آجاتا۔ اگر اس وقت مجھ میں اتنی ہمت ہوتی، تو اگلی دفعہ وہ ایسی کوئی بھی بات کسی دوسری خاتون سے کہنے سے پہلے دس بار سوچتے۔ مگر اپنی پوزیشن میں موجود دیگر کئی خواتین کی طرح میں کچھ کہنے کی ہمت نہ کر پائی۔
اس کی کچھ وجوہات ہیں۔ پہلے تو یہ کہ کئی خواتین سمجھتی ہیں کہ ہراساں کرنے والا تھوڑی بہت ڈانٹ ڈپٹ سے باز نہیں آ سکتا۔ دوسری بات یہ کہ ہم چاہتے ہیں کہ کام کی جگہ کا ماحول معمول کے مطابق رہے۔
ہم شاید ہی کبھی مکمل طور پر اپنی نوکریوں میں آزاد ہوں — ہم ٹیم ورک پر منحصر ہوتے ہیں اور کسی مخصوص شعبے میں اپنے تجربے اور معلومات کی کمی کو دوسروں سے مدد لے کر پورا کرتے ہیں۔
ہمارے پروموشن اور تنخواہوں میں اضافہ اس بات پر منحصر ہوتا ہے کہ ہمارے سپروائزر ہمارے بارے میں کیا رپورٹ دیتے ہیں، چنانچہ ہم زیادہ تر مواقع پر جھگڑا مول نہیں لے سکتے۔
اس طرح کے خدشات کی وجہ سے جب بھی کوئی لڑکی ہراسگی کا سامنا کرتی ہے تو اس کے ذہن میں پہلے خیالات یہ آتے ہیں:
"کیا اسے میری کسی بات سے شہہ ملی ہے؟"
"کیا میرا رویہ پروفیشنل نہیں تھا؟"
"کیا میں نے ٹھیک کپڑے نہیں پہن رکھے تھے؟"
اس لیے مجھے آج بھی اپنے بارے میں ندامت ہے کہ میں نے اس وقت انہیں سبق کیوں نہیں سکھایا۔ ہم خود پر سوال اٹھانے لگتے ہیں کیوں کہ ہمیں ساری زندگی یہی سکھایا گیا ہے کہ اس طرح کے واقعات کی ذمہ دار عورت خود ہوتی ہے۔
مجھے یہ احساس ہونے میں خاصہ وقت لگا کہ جب میرے باس نے اپنے ذہن کا گند میرے سامنے بکھیرا، تو اس میں میری کوئی غلطی نہیں تھی۔ میں نے انہیں ایسا کرنے کے لیے نہیں اکسایا تھا۔
اس لیے ہمیں بحیثیت ملازمین اور خواتین اپنے حقوق جاننے چاہیئں، یعنی رویہ جب اپنی لکیر پار کر جائے تو اس پر آواز اٹھانے کا حق، اور ہمارے آس پاس شکایات کے حل کے مراکز کی موجودگی تاکہ ہم کام کی جگہوں پر جنسی ہراسگی کے مسئلے سے نمٹ سکیں۔
ہمیں ہمیشہ دوسروں کے رویوں سے محتاط رہنا چاہیے اور کسی کو بھی اس تصور کا فائدہ نہیں اٹھانے دینا چاہیے کہ کیوں کہ ہم خواتین ہیں، اس لیے ہم اس طرح کے رویے کی مستحق ہیں۔
ہمیں اس جنگ میں مضبوطی سے اپنی جگہ قائم رہنا چاہیے اور کبھی بھی ان سے دبنا نہیں چاہیے۔
زیبائش چیمہ نیشنل یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی سے بزنس گریجوئیٹ ہیں اور راولپنڈی میں رہتی ہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔