کیپٹن صفدر کو امام مسجد بنانے کی تجویز
قومی اسمبلی کی رکن شاہجہان منگریو نے کیپٹن ریٹائرڈ محمد صفدر کو پارلیمنٹ ہاؤس کی مسجد کا امام بنانے کی تجویز دے دی۔
نیشنل پیپلز پارٹی کی خاتون رکن قومی اسمبلی شاہجہان منگریو نے انفارمیشن ٹیکنالوجی کی قائمہ کمیٹی کے اجلاس کے دوران کہا کہ 'آپ کو اسلام کے حوالے سے بہت زیادہ معلومات ہیں اور میں آپ کی معلومات سے متاثر ہوئی ہوں'۔
کیپٹن صفدر کی جانب سے توہین رسالت اور سوشل میڈیا کے استعمال پر طویل جذباتی تقریر کے بعد یہ تجویز سامنے آئی ہے۔
وزیراعظم نوازشریف کے داماد کیپٹن صفدر نے اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے کہا کہ انھوں نے سوشل میڈیا میں توہین رسالت کے حوالے سے قرارداد پارلیمنٹ میں جمع کرادی ہے۔
انھوں نے کہا کہ توہین رسالت کے مواد کو پھیلانے کے پیچھے ایک منظم مافیا ہے اور تجویز دی کہ اس مافیا کو روکنا چاہیے جبکہ یہ پارلیمنٹیرینز کی بنیادی ذمہ داری ہے کہ وہ اس معاملے کو دیکھیں۔
ان کا کہنا تھا کہ 'قیامت کے روز خدا ہم سے پوچھے گا اور میرا ماننا ہے کہ پاکستان ٹیلی کمیونی کیشن اتھارٹی (پی ٹی اے) اس معاملے کو سنھبالنے کی اہلیت رکھتی ہے جبکہ اس معاملے پر تمام انٹیلی جنس ایجنبسیاں اور پاکستانی عوام ہمارے ساتھ ہیں'۔
کیپٹن صفدر کا کہنا تھا کہ چند لوگوں نے ایک جج کو توہین رسالت کے معاملے کو اٹھانے پر تنقید کا نشانہ بنایا اور شکایت کی کہ جج نے عدالت کو مسجد میں تبدیل کردیا ہے'۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ 'ایسے لوگوں کو یہ نہیں پتہ کہ اگلے وقتوں میں عدالتیں مسجدوں میں لگتی تھیں اور تمام اہم فیصلے وہاں لیے جاتے تھے، پی ٹی اے کو معلوم کرنا چاہیے کہ توہین رسالت مہم کے لیے فنڈنگ کہاں سے ہورہی ہے اور اس معاملے پر آواز بلند کرنا ہماری ذمہ داری ہے کیونکہ یہ جہاد ہے اور ہم اس کو جاری رکھیں گے'۔
پاکستان مسلم لیگ نواز کی خاتون رکن فرحانہ قمر کپٹن صفدر کے بیان کی حمایت کرتے ہوئے آبدیدہ ہوگئیں۔
شاہجہان منگریو کا کہنا تھا کہ ملک میں ضرور چند ایسے لوگ موجود ہیں جو اس مہم کے پیچھے ہیں جبکہ ان کا کہنا تھا کہ کیپٹن صفدر کو اسلام کی معلومات کی بنا پر پارلیمنٹ ہاؤس کی مسجد کا امام ہونا چاہیے۔
کیپٹن صفدر نے جواب دیتے ہوئے کہا کہ وہ مسجد کا امام بننے پر خوشی محسوس کریں گے اور شاہجہان منگریو سے کہا وہ ان کا نام اس کے لیے تجویز کردیں۔
اپنے بیان کی وضاحت کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ یوٹیوب اور فیس بک سمیت سوشل میڈیا پر پابندی نہیں ہونی چاہیے لیکن توہین رسالت کا مواد ضرور ہٹادینا ہوگا۔
متحدہ قومی مومنٹ (ایم کیوایم) کے رکن سید علی رضا عابدی نے کہا کہ اس حوالے سے کمیٹی جو بھی فیصلہ یا اقدام اٹھائے گی ہماری پارٹی اس کی حمایت کرے گی۔
انفارمیشن ٹیکنالوجی کی وزیرمملکت انوشا رحمٰن نے شکایت کرتے ہوئے کہا کہ وزارت جب بھی سوشل میڈیا کے حوالے سے کوئی لائحہ عمل بنانے کی کوشش کرتی ہے تو عدالتیں رکاوٹ بن جاتی ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ 'اس معاملے پر حکومت کی پالیسی بڑی واضح ہے اور ہم اس بات پر متفق ہیں کہ پاکستان میں یوٹیوب اورگوگل کواجازت ہونی چاہیے جس پر ہم نے اپنا موقف نہ بدلا ہے اور نہ ہی بدل دیں گے'۔
انوشا رحمٰن نے کہا کہ 'یہ بدقسمتی کی بات ہے کہ جب کبھی ہم قانون بنانے کی کوشش کرتے ہیں تو این جی اوز اس کو آزادی اظہار کامعاملہ قرار دیتے ہوئے عدالت سے رجوع کرتی ہیں تاہم ایسے کسی مواد کو برداشت نہیں کریں گے جو پاکستان کے قانون کے خلاف ہو'۔
کمیٹی نے اسلامی نظریاتی کونسل سے صلاح و مشورے کی تجویز دی اور کہا گیا کہ تمام موبائل کمپنیوں کے ذریعے ایس ایم ایس اور پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کے ذریعے آگاہی مہم شروع کرلینی چاہیے جبکہ ایک تجویز یہ بھی دی گئی کہ این جی اوز کو ریگیولر کرنے کے طریقہ کار کو مزید مضبوط کیا جائے۔
قائمہ کمیٹی کا کہنا تھا کہ مشترکہ سفارتی کوششوں کو یقینی بنانے کے لیے اس معاملے کو دیگر مسلم ممالک کے سفیروں کے ساتھ بھی اٹھانا چاہیے جبکہ اسلامی تعاون تنطیم (او آئی سی) اور اقوام متحدہ کی متعلقہ اداروں کے سامنے بھی اس معاملے کو لے جانا چاہیے۔
یہ خبر 11 اپریل 2017 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی