گزشتہ ساڑھے تین سالوں کے دوران سندھ میں مسلم لیگ (ن) کے بارے میں اس رائے کو زیادہ تقویت حاصل رہی ہے کہ میاں نواز شریف کا آصف علی زرداری کے ساتھ ایک غیراعلانیہ معاہدہ ہے کہ وہ سندھ میں کوئی ایسی سیاسی مداخلت نہیں کریں گے جس سے پیپلز پارٹی کو کوئی پریشانی ہو۔
یہی سبب تھا کہ سندھ سے ن لیگ کے ٹکٹ پر منتخب ہونے والے واحد رکن قومی اسمبلی عبدالحکیم بلوچ بھی میاں نواز شریف کو چھوڑ کر واپس پیپلز پارٹی میں چلے گئے اور خالی نشست پر دوبارہ منتخب ہو کر قومی اسمبلی پہنچ گئے۔
عبدالحکیم بلوچ وزیرِ مملکت رہنے کے باوجود یہ شکایت کرتے رہے کہ انہیں اپنے حلقے کے لیے وفاقی حکومت کی جانب سے ایک روپے کی بھی ترقیاتی اسکیم نہیں دی گئی، کہ جسے وہ جواز بنا کر اپنے حلقے کے عوام کو بتا سکیں کہ ان کی ن لیگ کے اندرموجودگی کیوں ضروری ہے۔
وہ بتاتے ہیں کہ "دو بار خدا خدا کر کے انہیں وزیراعظم سے ملاقات کا وقت ملا، میں نے آخری ملاقات میں وزیراعظم کے روبرو اپنے تمام تحفظات بیان کردیے تھے۔ مجھے کہا گیا کہ ’’ہم آپ کو کسی طور نہیں چھوڑیں گے‘‘ لیکن جو تحفظات بیان کیے ان میں سے ایک بھی دور نہ ہوا۔ نتیجتاً میرے پاس اور کوئی چارہ نہیں تھا، یا تو میں اپنے حلقے کے عوام کی حمایت گنوا دوں یا وزارت اور پارٹی چھوڑدوں۔ میں نے دوسرا راستہ چن لیا۔"
اب مسلم لیگ (ن) کے صوبائی صدر اسماعیل راہو بھی پارٹی کو الوداع کہہ چکے ہیں۔ آنے والے کچھ دنوں کے اندر وہ بھی اپنے سیاسی مستقبل کا فیصلہ کرنے والے ہیں۔ اسماعیل راہو نامور ہاری رہنما شہید فاضل راہو کے بڑے فرزند ہیں اور میاں نواز شریف سے ان کی اکیس سالہ سیاسی رفاقت تھی۔ وہ میاں صاحب کی وفاداری میں مشرف دور میں دو سال جیل میں بھی رہے۔
اس بار جب 2013 میں ن لیگ نے اسلام آباد میں حکومت بنائی تو سندھ کے مسلم لیگیوں کا خیال تھا کہ اسلام آباد کے اقتدار میں ان کا بھی تھوڑا بہت حصہ ہوگا۔ لیکن یہ خیال محض خام خیالی ثابت ہوا۔ اسماعیل راہو بتاتے ہیں کہ وہ کئی بار وزیراعظم سے ملاقات کا وقت مانگتے رہے۔ انہوں نے اپنے حلقے کے 27 دیہاتوں کے لیے بجلی اور گیس کی اسکیمیں بھی تیار کر کے دیں لیکن جواب میں کچھ بھی نہیں ملا۔
ان پر بھی اپنے حلقے کے لوگوں کا شدید دباؤ تھا کہ وہ کم سے کم میاں نواز شریف کو فاضل راہو کی برسی میں ایک بار لے آئیں تا کہ انہیں بتایا جائے کہ ان کے دیہاتوں کی حالت کیا ہے۔ لیکن درخواست کرنے کے باوجود بھی میاں صاحب نے وقت نہیں دیا۔ دوسری طرف وہ ٹھٹھہ اور حیدرآباد گئے۔
نتیجہ، اسماعیل راہو ن لیگ کو خیرباد کہہ گئے۔ کچھ لیگی رہنما پارٹی چھوڑنے کا فیصلہ کر چکے ہیں صرف انہیں کسی دیگر جماعت میں شمولیت کا اعلان کرنا باقی ہے۔