پڑھائی کے دوران اور ختم ہونے کے بعد بھی مجھے کراچی کے ہسپتالوں میں کام کرنے کا شرف حاصل ہوا۔ اپنی تمام تر صلاحیت و قابلیت سے اپنے مریضوں کی خدمت کرتے وقت میرے تجربوں نے پاکستان میں شعبہ صحت کی صورتحال، جو بڑی حد تک غلط فہمی ہے — اور تھوڑی حد تک درست بھی ہے— کے بارے میں میری آنکھیں کھول دیں۔
میں نے سرکاری ہسپتالوں کی اہمیت کو سمجھا، جو کہ بدتر صورتحال میں بھی اپنے فرائض کی انجام دہی کسی حد تک جاری رکھے ہوئے ہیں۔ دوسری طرف، نجی ہسپتالوں نے مجھے نجی بنیادوں پر صحت کا خیال رکھنے کی غیر منصفانہ روش کے بارے میں سکھایا۔ مگر میں نے بے غرض افراد اور گروپس کو کچھ غیر معمولی کام کرتے ہوئے بھی دیکھا، جس نے میرے اندر اس امید کو جنم دیا کہ پورے ملک میں شعبہ صحت کا ایک بہتر نظام ضرور ممکن ہے۔
عالمی یوم صحت کے موقعے پر میں آپ سے اپنے تجربات کا تبادلہ کرنا چاہوں گا۔
سرکاری ہسپتال کس طرح فائدہ مند ہیں
سرکاری ہسپتال لوگوں کی ایک بڑی تعداد کو مفت میں طبی، جراحی اور ایمرجنسی نگہداشت فراہم کرتے ہیں۔ کئی افراد کو یہ پتہ ہی نہیں ہے کہ یہ ہسپتال 24 گھنٹے اسپیشلسٹ علاج بھی فراہم کرتے ہیں۔ میری ہاؤس جاب کے پہلے ماہ کے دوران اور میری دوسری رات کو جب میں میرے ای این ٹی وارڈ کے کال روم میں لوٹا ہی تھا کہ تب رات کے دو بجے میرے دروازے پر زوردار دستک سنی۔ دیکھا کہ ایک عمر رسیدہ شخص ہیں اور اپنی بانہوں میں اپنی تین سالہ پوتی کو اٹھائے کھڑے ہیں۔
وہ صاحب انتہائی پریشانی کے عالم میں تھے اور مجھے بتانے لگے کہ بچی نے غلطی سے اپنے کان میں کچھ ڈال دیا ہے۔ میں نے انہیں پروسیجر روم جانے کو کہا اور میں نے اپنا طبی آلات کا باکس اٹھایا اور بچی کا معائنہ کرنے چلا گیا۔
میں نے اپنے آلات کو جراثیم سے پاک کرنے کے لیے اسٹریلائز کیا اور اپنے وارڈ اسسٹنٹ کو بچی کو پکڑنے کا کہا تا کہ بچی کے کان سے اس شے کو نکالا جائے جو اس نے غلطی سے کان میں ڈال دی تھی۔ لڑکی کے کان سے دو چھوٹے موتی نکلے۔
میری ہاؤس جاب کے ایک ہفتے کے بعد، ایسے کیسز روز کا معمول بن گئے تھے۔ مگر جس بات نے مجھے حیران کیا وہ تھا اس دادا کا رد عمل۔ وہ بزرگ شخص اپنے گھٹنوں پر بیٹھ گئے اور رونے لگے۔ انہوں نے مجھ سے بتایا کہ وہ کس قدر شکر گزار ہیں اور کس طرح سرکاری ہسپتالوں کا ہونا ایک رحمت سے کم نہیں جہاں رات گئے بھی ای این ٹی ڈاکٹرز دستیاب ہیں۔
"رات کے اس پہر میں ایک غریب شخص اگر سرکاری ہسپتالیں نہ جائے تو کہاں جائے؟ ہم نجی ہسپتالوں کا خرچہ برداشت نہیں کر سکتے جہاں ایک ای این ٹی ماہر ڈاکٹر کو گھر سے بلانے پر ہم سے ہزاروں روپے لیے جاتے۔"
وہ بالکل درست تھے۔ نجی ہسپتالوں کے ایمرجنسی روم میں کام کرنے کے میرے تجربے کے دوران، مجھے بتایا گیا تھا کہ ایک ای این ٹی ماہر ڈاکٹر اپنے گھر سے ایمرجنسی روم تک آنے کے 25 ہزار روپے لیتے ہیں۔ یہ صرف ان کی ذاتی فیس ہوتی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ ایمرجنسی کا خرچہ (فی گھنٹہ کے حساب سے)، پروسیجر روم (مائنر آپریشن تھیٹر)، اور دیگر خرچوں کی مجموعی رقم ایک عام آدمی کو مقروض بنانے کے لیے کافی ہو سکتی ہے۔