نقطہ نظر

بندوقوں کا کام اشاروں سے کرنے والا مصباح

شاہد آفریدی اور عمران خان کا کرشماتی ملاپ مصباح الحق ہے۔
مصباح الحق قذافی اسٹیڈیم، لاہور میں ٹیسٹ چیمپئن شپ میس کے ہمراہ —ایم عارف، وائٹ اسٹار

مصباح لارڈ میں ایک زبردست شاٹ کھیلتے ہیں، اور ان کی سنچری مکمل ہوجاتی ہے۔ عام طور پر تو یہ ایک بہت بڑی خبر ہے، مگر جب میریلیبون کرکٹ کلب کے پرانے افراد آہستہ آہستہ کھڑے ہونے لگتے ہیں، تو یہ شخص، جو تقریباً انہی کی عمر کا ہے، کریز سے آگے نکل جاتا ہے، بالکونی کی جانب دیکھتا ہے، اور سیلوٹ کرتا ہے۔

شاید یہ مصباح کی جانب سے کیے گئے سادہ اور آسان ترین کاموں میں سے ایک ہو، اور شاید مصباح کے سب سے بڑے کارناموں میں سے بھی ایک۔

لہراتی زلفیں، نوجوان، خوبصورت، بے فکرا، دل آویز، تھوڑا خطرناک، دل توڑ دینے والا، ایسا شخص جس پر کمرے میں داخل ہوتے ہی آپ کی توجہ جاتی ہے، یا ایسا شخص جو کمرے میں داخل ہوتے ہی آپ کی توجہ اپنی جانب کھینچ لیتا ہے۔ پاکستانیوں کے نزدیک ان کا مثالی شخص ایسا ہی ہوتا ہے۔

ہر ملک کے لوگوں کے ذہنوں میں مثالی افراد کا اپنا ایک رومانوی خاکہ موجود ہوتا ہے۔ پاکستان میں یہ شاہد آفریدی اور عمران خان کا کرشماتی ملاپ مصباح الحق ہے، ایسا جنگجو جو ایک سفید گھوڑے پر صرف اپنا بلا لہراتے ہوئے میدانِ جنگ میں کود پڑے اور اس کے سپاہی اس کی قیادت میں آگے بڑھتے رہیں۔

مگر مصباح کا ایسا خاکہ کافی مزاحیہ ہوگا۔ جب وہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہیں تو وہ صرف کیمروں کے اسٹینڈز کو دیکھتے ہوئے سپاٹ انداز میں جواب دیتے جاتے ہیں۔ ٹی وی پر وہ ایک بے زار پروفیسر کی طرح بات کرتے ہیں۔ جس دن انہیں اپنی داڑھی رنگنے کا خیال آ بھی جائے، تب وہ ان میں شاہد آفریدی جیسی لازوال جوانی نظر نہیں آتی۔

وہ بلاشبہ بدصورت نہیں ہیں، مگر دل آویز بھی نہیں، اور کم از کم ایسے تو بالکل نہیں جن پر لڑکیاں مر مٹیں۔ مگر پاکستان میں شاید ایک بھی باپ ایسا نہ ہو جو اپنی بیٹی کے مصباح سے شادی کرنے پر اعتراض کرے۔ وہ دوستانہ مزاج رکھتے ہیں، ذہین ہیں، اور ایک خشک حسِ مزاح کے مالک ہیں جسے وہ صرف غیر معمولی حالات میں ہی استعمال کرنے کے عادی ہیں۔

کسی بھی باپ کو اپنے بیوی، بچوں، اور سامان سے بھری گاڑی میں ایک سفر پر جاتے ہوئے تصور کریں، آپ کو ان سب میں تھوڑا بہت مصباح ضرور نظر آئے گا۔

ایک طویل عرصے تک یہ چیز ان کے خلاف استعمال ہوتی تھی۔ ان کے پاس یونس خان جیسا جذبہ اور جارحیت نہیں تھی، ان میں اور شاہد آفریدی میں انسان ہونے کے علاوہ اور کوئی قدر مشترک نہیں تھی، اور وہ عمران خان جیسے بھی نہیں تھے۔

ویسے شاید کچھ چیزیں تھیں جو ان میں مشترک تھیں۔ ہمارے خوابوں کے عمران خان، ہاتھ ہوا میں، سبز شرٹ پہنے ہوئے، صرف وہی ایک عمران خان نہیں۔

ایک اور عمران خان وہ ہیں جو ایئن چیپل کو گھبرائے ہوئے انداز میں سمجھاتے ہیں کہ زخمی شیر کیا کر سکتے ہیں۔ مگر ہمارے عمران خان ایک حیرت انگیز کھلاڑی، ایک تند و تیز گھوڑے ہیں۔ اس کے مقابلے میں مصباح کسی فیکٹری میں حساب کتاب رکھنے والے شخص کی طرح دھیمے مزاج کے ہیں۔

آپ میں سے جس کسی نے بھی گلیڈی ایٹر فلم دیکھ رکھ ہوگی، اسے وہ منظر ضرور یاد ہوگا جب بیٹا اس بات پر افسوس کرتا ہے کہ اس کے باپ نے اس کی کبھی عزت نہیں کی۔ کموڈس مارکس اوریلیئس سے کہتا ہے:

"آپ نے مجھے ایک دفعہ ایک خط میں چار اچھائیاں گنوائی تھیں: دانائی، عدل، بہادری، اور اعتدال پسندی۔ جب میں نے یہ فہرست پڑی تو میں جان گیا تھا کہ مجھ میں ایسا کچھ بھی نہیں ہے۔ مگر ابو، میرے پاس اور اچھائیاں ہیں۔ میرے پاس عزم ہے۔ اگر یہ ہمیں مہارت کی جانب لے جائے تو یہ ایک اچھائی ہے۔ مشکل حالات سے مقابلہ کرنے کی ہمت، ہاں شاید میدانِ جنگ میں نہ ہو، مگر ہمت کی اور کئی اقسام ہیں۔ عقیدت، آپ سے اور اپنے خاندان سے۔ مگر میری کوئی بھی اچھائی آپ کی فہرست میں شامل نہیں۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ جیسے آپ مجھے اپنے بیٹے کے طور پر چاہتے ہی نہیں تھے۔"

اگر مصباح چاہتے تو وہ بھی اپنی تمام تر اچھائیاں گنوا دیتے مگر مصباح وہ جنگجو قائد نہیں ہیں جو پاکستانیوں کو چاہیے تھا۔

عمران شاید پاکستانی کے دیومالائی کردار ہیں، آفریدی پاکستانیوں کے تصورات کے ہیرو ہیں، مگر مصباح پاکستان کی حقیقت ہیں۔

متحدہ عرب امارات میں مصباح الحق ویسٹ انڈیز کے خلاف دوران بیٹنگ —تصویر بشکریہ پی سی بی

گول چہرے والا ایک سوٹڈ بوٹڈ شخص، جس کی پاکستان کرکٹ ٹیم میں کوئی جگہ نہیں تھی، وہ دورہءِ انگلینڈ کے دوران ان کے ساتھ ساتھ چلتا رہا۔ وہ نہ کوچ تھا نہ منتظم، اس کا کرکٹ سے تعلق صرف ایک پرستار کی حد تک تھا۔ وہ پاکستانی بھی نہیں بلکہ انگریز تھا۔ مگر وہ کیوں انگلینڈ میں پاکستانی ٹیم کے ساتھ تھا؟ کیوں کہ وہ اسپاٹ فکسنگ اسکینڈل کے بعد پہلی دفعہ انگلینڈ آنے پر پریشان تھے کہ ان کے ساتھ کیا ہو سکتا ہے۔

کیا چٹپٹے اخبارات نے ان پر حملہ کر دینا تھا؟ کیا تنقیدی نظر رکھنے والے انگریز تبصرہ نگار مزید مجرمان کی تلاش میں ان کی ہر حرکت پر نظر رکھتے؟ کیا دائیں بازو کے تبصرہ نگار انہیں آسان شکار کے طور پر استعمال کرتے؟ کیا وہ انگلینڈ کے اسلامو فوبک بننے کا خمیازہ بھگتتے؟ اور سب سے بڑی بات یہ کہ کیا ان کا کوئی کھلاڑی دوبارہ ایک سنگین غلطی کر دیتا؟

تو پیشہ ور رویوں سے عاری اور سیاسی مداخلت سے بھرپور ٹیم نے ایک زبردست فیصلہ کیا: انہوں نے ایک ترجمان اپنے ساتھ رکھ لیا۔ اور یہی وہ شخص، ایک خوش مزاج انگریز جان کولیٹ تھا، جو رائے عامہ کے لیے خطرناک کسی بھی صورتحال کے وقوع پذیر ہونے کی صورت میں مددگار ہونا تھا۔

دورہ شروع ہونے کے چند ہفتوں میں ہی یہ واضح تھا کہ اس شخص کی کوئی خاص ضرورت نہیں تھی۔ پاکستان ٹیم مشہور تھی اور اسکینڈل کا کوئی شائبہ نہیں تھا، میڈیا میں کرکٹ کے علاوہ شاید ہی کوئی بات ہوئی ہو، اور کرکٹ پریس تو اسی دن جیت لی گئی تھی جس دن مصباح پہلی دفعہ ان کے سامنے بیٹھے۔

جو شخص پبلک ریلیشنز کے کام کے لیے اتنا ہی غیر مناسب لگتا تھا جتنا کہ ریسلنگ کے لیے، وہی شخص پاکستان کا عظیم ترین ترجمان بنا۔ پاکستان نے انگلینڈ کے ساتھ سیریز تو ڈرا کی، مگر مصباح نے انگلینڈ کو جیت لیا۔

اس سال کوئی جائزہ ایسا نہیں تھا جس نے مصباح کے سال کے بدترین لمحۓ کا ذکر نہ کیا ہو جس میں انہوں نے شوخ نارنگی جوتے پہن رکھے تھے۔ مگر ایسی اور بھی چیزیں ہیں جو مصباح کے لیے پریشان کن تھیں۔ انہیں سلو اوور ریٹ پر معطل کر دیا گیا تھا جو کہ اسپن پر انحصار کرنے والی ٹیم کے لیے بہت بری بات ہے۔

اس کے علاوہ وہ نیوزی لینڈ سے ٹیسٹ سیریز بھی ہار گئے تھے۔ دو سال قبل نیوزی لینڈ سے ٹیسٹ سیریز ہار دینا کوئی بڑی بات نہیں تھی جب مصباح کے بالکل الٹ برینڈن مک کلم اپنی ٹیم کی کسی پختون جنگجو شاعر کی طرح قیادت کر رہے تھے۔

مگر پاکستان کے آنے تک نیوزی لینڈ کافی کمزور ٹیم تھی۔ پاکستان کی شکست کی بھی اپنی وجوہات تھیں۔ جس کسی نے بھی یہ سوچا تھا کہ عرب امارات میں سیریز کھیلنے کے بعد فوراً نیوزی لینڈ جانا اچھا رہے گا، بہت ہی کوئی بے وقوف شخص تھا۔

یہ پاکستان کی سب سے بری سیریز نہیں تھی۔ ویسٹ انڈیز کے ساتھ اگلی سیریز ایسی تھی جیسے کوئی نیند میں چل رہا ہو، اور پہلے میچ میں ناقابلِ شکست نظر آنے کے باوجود ہار گئے، اور پھر ویسٹ انڈیز کی بغیر کوچ کی ٹوٹ پھوٹ کی شکار ٹیم کے ہاتھوں آخری ٹیسٹ بھی ہار گئے۔

کوئی اور سال ہوتا تو یہ کارکردگی نہایت بری تھی، مگر یہ پاکستان کرکٹ کا سال تھا، ٹیم کے سنہری لمحات، وہ سال جب وہ 60 سال کی کوشش کے بعد آخر پہلی بار دنیا کی بہترین ٹیم بنے۔ انہوں نے سخت محنت کی تھی، سو انہیں انعام بھی ویسا ہی ملنا چاہیے تھا۔

پاکستان نے اس سال 11 ٹیسٹ کھیلے تھے جس میں سے چار جیتے اور سات ہارے، لیکن اس کے باوجود یہ پاکستان کرکٹ کا سال تھا۔ ٹیسٹ کرکٹ کے رینکنگ سسٹم بھلے ہی خامیوں سے بھرپور ہوں مگر یہ ایک دورانیے کے بعد آپ کو نواز ہی دیتا ہے اور پاکستان کے لیے یہ سال 2016 تھا۔

مگر 2016 کے اختتام تک سیریز اور ٹیسٹ ہارنے کی وجہ سے سب کو یہ یقین ہو چلا تھا کہ انڈیا سب سے بہترین ٹیسٹ ٹیم ہے۔

اپنی سرزمین پر کرکٹ سے محرومی، بار بار کوچز کی تبدیلی، کھلاڑیوں کے لیے نوکریاں، سیلیکشن کا خامیوں سے بھرپور نظام، فنڈنگ کی کمی، قدیم تجزیے، ان فٹ کھلاڑی، کرکٹ کی نئی دنیا سے عدم آگاہی، انتظامی بدنظمی، اندرونی اور بیرونی کرکٹ سیاست، میچ فکسنگ، جیل، اور دہشتگردی۔

یہ فہرست مکمل نہیں ہے، اور نہ ہی ان تمام چیزوں کا احاطہ کرتی ہے جن سے نمٹ کر پاکستانی ٹیم نمبر ون بننے میں کامیاب ہوئی، مگر ہاں یہ چند بڑے مسائل ہیں۔ کسی بھی دوسری ٹیم کو نمبر ون بننے کے لیے اتنے مسائل سے نمٹنا نہیں پڑا ہوگا۔ پاکستان کا سفر اس کے کرکٹ کے باقی تمام پہلوؤں کی طرح منفرد ہے۔

ہو سکتا ہے کہ آپ ان تمام مسائل کے پاکستانی کھلاڑیوں پر مثبت اثرات گنوا دیں، کہ عرب امارات میں زیادہ بہتر سہولیات ہیں، یا یہ کہ نئے زمانے کی کرکٹ سے ہم آہنگ نہ رہنے کی وجہ سے ہی وہ ٹیسٹ کرکٹ میں شاندار کامیابی دکھانے میں کامیاب ہوئے ہیں۔

مگر آخری تین چیزیں، فکسنگ، جیل، اور دہشتگردی ایسی چیزیں ہیں جن میں سے اچھا پہلو ڈھونڈ نکالنا بہت مشکل ہے۔ موت، کرپشن اور جیل کو بھی بھول جائیں، اور صرف یہ سوچیں کہ یہ پہلے سے ٹوٹ پھوٹ کی شکار قومی کرکٹ ٹیم پر کیا اثرات مرتب کر سکتی ہیں۔

ایک روایتی ٹیسٹ ٹیم کی قیادت بہت مشکل کام ہے۔ ہوسکتا ہے کہ آپ کہیں کہ فیلڈ میں ویرات کوہلی کی قیادت کھیل کا مشکل ترین کام ہے، مگر پاکستان ٹیم کی کپتانی کرنا شاید کرکٹ کا مشکل ترین کام تھا، اور لگاتار بحرانوں کے بعد کے ابتدائی چند سالوں میں یہ حالات کرکٹ ٹیموں کی تاریخ کے مشکل ترین حالات میں سے تھے۔

پر اگر پاکستانی کھلاڑی جیل نہ گئے ہوتے، دہشتگردی کی وجہ سے دوسرے ممالک میں کھیلنے پر مجبور نہ ہوئے ہوتے اور صرف ایک نارمل، کبھی کبھار کامیاب ہوجانے والی ٹیسٹ کرکٹ ٹیم ہوتے، تو کیا وہ خراب ریکارڈ رکھنے والے ایک بوڑھے شخص کو اپنا کپتان بناتے؟

اس وقت ان کی بیٹنگ اوسط 33 تھی۔ موجودہ دور کے تمام کھلاڑی، وہ چاہے جس بھی نمبر پر بیٹنگ کریں، ان کی اوسط 34 ہے۔ سو مصباح تمام کھلاڑیوں سے بھی خراب تر اوسط رکھتے تھے۔ وہ بیٹسمینوں کے دور میں اوسط سے کھلاڑی بھی نہیں بلکہ اس سے بھی نیچے تھے۔

وہ اس پوزیشن میں اپنی بیٹنگ کی وجہ سے نہیں تھے، بلکہ اپنی شدید مصباحیت کی وجہ سے تھے۔ ان کی قائدانہ صلاحیتیں ہمیشہ سے واضح تھیں۔ فیلڈ میں حالات تھوڑے دگرگوں ہونے پر ان کے ہاتھ کا اشارہ، ان کا دونوں ہاتھ باہر نکال کر ایک غیر مرئی پیانو بجانا، یہ سب صرف ایک کرکٹ کی چیز نہیں ہے۔

آپ انہیں کسی بھی صورت میں تصور کر سکتے ہیں، وہ ایسے تھے جو ہر کسی کو جذبات کی اونچائیوں سے واپس زمین پر لا کر صرف سامنے موجود چیزوں پر غور کروانے میں کامیاب رہتے تھے۔ جیسے کہ وہ کسی غصیلے بھینسے کے سامنے کھڑے ہوں اور اسے اچانک اپنے ہاتھوں سے روک ڈالیں۔

مصباح الحق بادشاہی مسجد لاہور کے آگے آئی سی سی کرکٹ ورلڈ کپ 2015 کی ٹرافی تمامے کھڑے ہیں — عارف علی، وائٹ اسٹار

اور پاکستان کرکٹ بھی ایک غصیلے بھینسے کی طرح ہی ہے۔

ان دنوں لارڈز ٹیسٹ ناقابل یقین حد تک پریشان کن تھا۔ دو بڑی خوبصورتی سے کمزور ہونے والی ٹیمیں، جارحیت اور عدم تحفظ کے ساتھ ایک دوسرے کے مد مقابل تھیں۔ آخری دن جب انگلینڈ اسکور کے تعاقب کے لیے آیا، تب پاکستانی ٹیم کو بکھیرنے کے لیے بہترین وقت میسر تھا۔ جی ہاں اس میدان میں جہاں صرف ایک کپتان کھڑا نہیں ہوتا بلکہ 30 کروڑ پاکستانی کھڑے ہوتے ہیں۔

جونی بیرسٹو، جو کرکٹ بال پر ناقابل یقین حد تک ہٹ مارنے کی خداداد صلاحیت کے مالک ہیں، وہ صرف جیتنا نہیں چاہتے ہیں بلکہ وہ آپ کو شکست دینا چاہتے ہیں۔ ان کا ساتھ نبھانے کے لیے پر سکون طبعیت کے کرس ووکس بھی ہیں، جو ایک قدرتی صلاحیت کے مالک ہیں، بیرسٹو ایک ایسے کھلاڑی ہیں جو اپنی کسی بھی پوزیشن میں جارحیت پیدا کر سکتے ہیں، اور یہ اسی قسم کا ٹیسٹ اور اسی قسم کے کم رنز کا تعاقب تھا جس میں کھیل خود بخود دھوئیں دار ہو جاتا ہے۔

پاکستان نے ان کے خلاف یاسر کو بھیجا مگر وہ پاکستان کو پار نہ لگا سکے۔ انہوں نے وہاب کی تیز گیندیں پھینکی، جتنی ہو سکیں اتنی تیز مگر کچھ نہ ہوا۔ مگر انگلینڈ دھیرے دھیرے مصباح کی منصوبہ بندیوں سے میدان میں کھڑی رکاوٹوں اور ٹوٹے شیشوں کے پھندوں کو عبور کرتے ہوئے کامیابی کی طرف بڑھتا رہا اور پاکستان دیکھتا رہا۔

کئی اہم وجوہات تھیں جو پاکستان کو اس کٹھن راہ کی طرف لے جا سکتی تھیں۔ پچ پر دوڑ، باآواز بلند ایک دوسرے کو باآواز بلند پکاریں جن میں وہ اپنے دل سے اعتماد رکھتے ہیں، بریسٹو کے ساتھ میچز کی شروعات، یہ تمام چیزیں ایک دن پاکستان کو کٹھن راہ پر دھکیل سکتی تھیں۔ مگر اس ڈرامائی صورتحال میں شاید ہی مصباح متحرک ہوئے ہوں، شاید ہی کوئی پیغام بھیجا ہو، شاید ہی کچھ کیا ہو، مصباح اپنے کاندھے اچکانے سے وہ کچھ کر لیتے تھے جو زیادہ تر آدمی اپنی بندوقوں کے ساتھ کرتے ہیں۔

پاکستانی ٹیم بکھرنی لگی تھی اور میچ ہارنے والا تھا؛ مگر وہ اس ٹیم کو مضبوط بنانے کے لیے پرعزم تھے۔ دس کھلاڑیوں کا مقابلہ صرف ایک مضبوط ارادہ، اور ارادہ جیت گیا یوں پاکستان بھی فتح یاب ہوا۔ اور سریز کے آخر تک، وہ صف اول میں شمار تھے۔

پاکستان کرکٹ کے پاگل پن نے ہی مصباح کو بنایا اور مصباح نے پاکستان کرکٹ کے پاگل پن کو ختم کر دیا تھا۔

تین برس قبل، مصباح کے بارے میں ایک پاکستانی دوست سے گفتگو ہوئی تھی، وہ مجھے بتا رہی تھی کہ ان میں کوئی بھی خاص بات نہیں ہے، وہ درست رہنما نہیں ہیں اور یہ کہ پاکستان کرکٹ کی حالت ان کے الگ کے ہونے کے بعد بہتر ہوگی۔ وہ کوئی کم عقل خاتون نہیں ہیں، وہ کافی کامیاب، ذہین اور بڑی حد تک پاکستان کا مستقبل ہیں، مگر ان کے نزدیک مصباح کسی قسم کی قائدانہ صلاحیت سے عاری ایک بورنگ شکست خوردہ کپتان ہیں۔

آج کل زیادہ تر آپ مصباح سے نفرت پر مشتمل مضامین سے زیادہ ایسے مضامین پڑھتے ہوں گے جو اس بارے میں ہیں کہ مصباح کو کس طرح نفرتوں کا نشانہ بنایا گیا۔ ٹک ٹک کے دن کب کے بیت چکے۔ وہ شخص، جو انڈیا کے خلاف ورلڈ ٹی 20 تقریباً جیت کے کنارے پر پہنچنا اور پھر ہارنا، محض ان کے بیانیے ایک حصہ بھر ہیں۔ یہ حقیقت کہ وہ (سچ کہیں تو دنیا کا کوئی آدمی بھی) ایک کامیاب روزہ ٹیم نہیں بنا سکے معنی نہیں رکھتی۔ کیونکہ مصباح ملک میں میس کو جو لے کر آئے۔

میس کرکٹ میں تھوڑی علامتی اہمیت رکھتا ہے۔ اس کا تذکرہ ہوتا ہے مگر کرکٹ نے ابھی تک میک کو اس طرح اختیار نہیں کیا ہے جس طرح دیگر کھیل اپنی ٹرافیوں کو اہمیت دیتی ہیں۔ پاکستان سے تھوڑا ہی عرصہ قبل آسٹریلیا نے یہ خطاب حاصل کیا تھا، جو سری لنکا میں منعقد ایک محدود تقریب میں ان کے حوالے کیا گیا۔

جب مصباح نے میک کو اٹھایا تب شاید پہلی بار ایسا تھا کہ جب لگا کہ یہ میس کی بھی کچھ حیثیت رکھتا ہے۔ شاید اس بات کا تعلق کرکٹ کے بارے میں نہ ہو، مگر پاکستان کے بارے میں ضرور ہے، متنازع ساکھ، سبز شرٹ میں ملبوس ستاروں، کرکٹ کے زبردست ڈرامہ پیش کرنے والوں، ریشمی بالوں والے بے گھر لڑکوں، اور گھیرے میں پھنسے شیروں کی رہنے والی ٹیم، وہ اب، تھوڑے ہی صحیح مگر خوبصورت عرصے کے لیے، دنیائے کرکٹ کی بہترین کرکٹ ٹیم ہے۔

آئی سی سی چیف ایگزیکیٹو ڈیوڈ رچرڈسن مصباح الحق کو قذافی اسٹیڈیم لاہور میں آئی سی سی ٹیسٹ چیمپئن شپ میس پیش کر رہے ہیں— عارف علی، وائٹ اسٹار

اگر یہ ورلڈ ٹی 20 یا ورلڈ کپ کا موقعہ ہوتا تو وہ ضرور تصاویر، میمز، خوشیوں کا تبادلہ کرتے مگر یہ سب اتنا زیادہ معنی خیز نہیں۔ جی ہاں سابق ٹک ٹک مصباح ایویئیٹر چشمہ پہنے کرکٹ کا عظیم ترین خطاب ہاتھوں میں تھامے کھڑے تھے۔ وہ کافی پر سکون نظر آئے، پر سکون، جتنے عام دنوں میں کبھی دکھائی نہیں دیے تھے، اپنی سبز پاکستانی جیکٹ میں زیب تن، کالے چشے کے پیچھے چٹانی چہرہ، اور ہاتھ میں میس۔ ایک لمحے کے لیے تو وہ ان کے خوابوں کے پاکستان جیسے نظر آئے۔

مگر پھر انہوں نے خود کو یاد کیا اور ایویئیٹرز اتار دیے، اور کالے چشمے کے پیچھے ایک سادہ سا متوسط طبقے کے ایک آدمی تھا، جو یہ نہیں جانتا تھا کہ ایک بڑی ٹرافی کو تھامے کس طرح کیمرے کے سامنے کس طرح دیکھنا ہے۔ مگر ان کی سادگی میں، خوبصورتی سے بنی زلفوں کے ساتھ یہ بھی صاف نظر آ رہا تھا کہ ان کے نزدیک جو پاکستان کی حقیقت تھی وہ ایک غیر حقیقی داستان سے زیادہ نہیں تھی۔

کبھی کبھار کرکٹرز کو اپنے بارے میں تاثر کو تبدیل کرنے کے لیے غیر معمولی چیزیں کرنی پڑتی ہیں۔ مگر مصباح کو صرف خود کو مصباح ہی رکھنا پڑا تھا اور دنیا تسخیر کرنی تھی۔

پاکستانی حکومت کی شخصیات کی جانب سے کچھ پریشانی ظاہر کی گئی کہ مصباح کا سلیوٹ مسلح افواج کی حمایت کرنے کی ایک چال تھی۔ دراصل یہ ان لوگوں کو شکریہ تھا جنہوں نے ان کی تیاری میں مدد کی تھی۔ مگر اس سے بھی زیادہ، مصباح کے پش اپس کا اصل مقصد اپنے آدمیوں اور اپنی قوم کو یہ دکھانا تھا کہ صرف باصلاحیت ہی ہونا کافی نہیں ہے۔

اگر آپ کو صف اول میں آنا ہے تو آپ ضرور آ سکتے ہیں، جس کا سارا دارومدار آپ پر ہی ہے، آپ کو سخت محنت کرنی ہوتی ہے، ایسی سخت محنت جو آپ نے زندگی بھر کبھی نہیں کی، کسی بھی شخص سے زیادہ سخت سے سخت محنت کرنی ہوتی ہے۔ یہ ان کی جانب سے کوئی نئی چیز نہیں تھی۔ یہ ان کا پاکستان کے لیے پیغام تھا اور ان آدمیوں کو شکریہ ادائگی تھی جنہوں نے ان کی ٹیم کو تیار کرنے میں مدد کی۔

مصباح نے پش اپس کیے، پاکستان نے پیروی کی۔ مصباح نے سربراہی کی، پاکستان نے پیروی کی، مصباح نے اعتماد دکھایا، پاکستان نے اعتماد دکھایا۔ انہوں نے پاکستان میں اعتماد دکھایا اور مصباح میں بھی۔

یہ مضمون ہیرالڈ کی 2017 کی سالانہ اشاعت برائے پرسن آف دی ایئر سلسلے کے حصے کے طور پر لکھا گیا تھا۔

انگلش میں پڑھیں۔

جیرڈ کِمبر

جیرڈ کِمبر آسٹریلیا سے تعلق رکھتے ہیں اور کرکٹ تجزیہ نگار ہیں۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔