متحدہ عرب امارات میں مصباح الحق ویسٹ انڈیز کے خلاف دوران بیٹنگ —تصویر بشکریہ پی سی بی
گول چہرے والا ایک سوٹڈ بوٹڈ شخص، جس کی پاکستان کرکٹ ٹیم میں کوئی جگہ نہیں تھی، وہ دورہءِ انگلینڈ کے دوران ان کے ساتھ ساتھ چلتا رہا۔ وہ نہ کوچ تھا نہ منتظم، اس کا کرکٹ سے تعلق صرف ایک پرستار کی حد تک تھا۔ وہ پاکستانی بھی نہیں بلکہ انگریز تھا۔ مگر وہ کیوں انگلینڈ میں پاکستانی ٹیم کے ساتھ تھا؟ کیوں کہ وہ اسپاٹ فکسنگ اسکینڈل کے بعد پہلی دفعہ انگلینڈ آنے پر پریشان تھے کہ ان کے ساتھ کیا ہو سکتا ہے۔
کیا چٹپٹے اخبارات نے ان پر حملہ کر دینا تھا؟ کیا تنقیدی نظر رکھنے والے انگریز تبصرہ نگار مزید مجرمان کی تلاش میں ان کی ہر حرکت پر نظر رکھتے؟ کیا دائیں بازو کے تبصرہ نگار انہیں آسان شکار کے طور پر استعمال کرتے؟ کیا وہ انگلینڈ کے اسلامو فوبک بننے کا خمیازہ بھگتتے؟ اور سب سے بڑی بات یہ کہ کیا ان کا کوئی کھلاڑی دوبارہ ایک سنگین غلطی کر دیتا؟
تو پیشہ ور رویوں سے عاری اور سیاسی مداخلت سے بھرپور ٹیم نے ایک زبردست فیصلہ کیا: انہوں نے ایک ترجمان اپنے ساتھ رکھ لیا۔ اور یہی وہ شخص، ایک خوش مزاج انگریز جان کولیٹ تھا، جو رائے عامہ کے لیے خطرناک کسی بھی صورتحال کے وقوع پذیر ہونے کی صورت میں مددگار ہونا تھا۔
دورہ شروع ہونے کے چند ہفتوں میں ہی یہ واضح تھا کہ اس شخص کی کوئی خاص ضرورت نہیں تھی۔ پاکستان ٹیم مشہور تھی اور اسکینڈل کا کوئی شائبہ نہیں تھا، میڈیا میں کرکٹ کے علاوہ شاید ہی کوئی بات ہوئی ہو، اور کرکٹ پریس تو اسی دن جیت لی گئی تھی جس دن مصباح پہلی دفعہ ان کے سامنے بیٹھے۔
جو شخص پبلک ریلیشنز کے کام کے لیے اتنا ہی غیر مناسب لگتا تھا جتنا کہ ریسلنگ کے لیے، وہی شخص پاکستان کا عظیم ترین ترجمان بنا۔ پاکستان نے انگلینڈ کے ساتھ سیریز تو ڈرا کی، مگر مصباح نے انگلینڈ کو جیت لیا۔
اس سال کوئی جائزہ ایسا نہیں تھا جس نے مصباح کے سال کے بدترین لمحۓ کا ذکر نہ کیا ہو جس میں انہوں نے شوخ نارنگی جوتے پہن رکھے تھے۔ مگر ایسی اور بھی چیزیں ہیں جو مصباح کے لیے پریشان کن تھیں۔ انہیں سلو اوور ریٹ پر معطل کر دیا گیا تھا جو کہ اسپن پر انحصار کرنے والی ٹیم کے لیے بہت بری بات ہے۔
اس کے علاوہ وہ نیوزی لینڈ سے ٹیسٹ سیریز بھی ہار گئے تھے۔ دو سال قبل نیوزی لینڈ سے ٹیسٹ سیریز ہار دینا کوئی بڑی بات نہیں تھی جب مصباح کے بالکل الٹ برینڈن مک کلم اپنی ٹیم کی کسی پختون جنگجو شاعر کی طرح قیادت کر رہے تھے۔
مگر پاکستان کے آنے تک نیوزی لینڈ کافی کمزور ٹیم تھی۔ پاکستان کی شکست کی بھی اپنی وجوہات تھیں۔ جس کسی نے بھی یہ سوچا تھا کہ عرب امارات میں سیریز کھیلنے کے بعد فوراً نیوزی لینڈ جانا اچھا رہے گا، بہت ہی کوئی بے وقوف شخص تھا۔
یہ پاکستان کی سب سے بری سیریز نہیں تھی۔ ویسٹ انڈیز کے ساتھ اگلی سیریز ایسی تھی جیسے کوئی نیند میں چل رہا ہو، اور پہلے میچ میں ناقابلِ شکست نظر آنے کے باوجود ہار گئے، اور پھر ویسٹ انڈیز کی بغیر کوچ کی ٹوٹ پھوٹ کی شکار ٹیم کے ہاتھوں آخری ٹیسٹ بھی ہار گئے۔
کوئی اور سال ہوتا تو یہ کارکردگی نہایت بری تھی، مگر یہ پاکستان کرکٹ کا سال تھا، ٹیم کے سنہری لمحات، وہ سال جب وہ 60 سال کی کوشش کے بعد آخر پہلی بار دنیا کی بہترین ٹیم بنے۔ انہوں نے سخت محنت کی تھی، سو انہیں انعام بھی ویسا ہی ملنا چاہیے تھا۔
پاکستان نے اس سال 11 ٹیسٹ کھیلے تھے جس میں سے چار جیتے اور سات ہارے، لیکن اس کے باوجود یہ پاکستان کرکٹ کا سال تھا۔ ٹیسٹ کرکٹ کے رینکنگ سسٹم بھلے ہی خامیوں سے بھرپور ہوں مگر یہ ایک دورانیے کے بعد آپ کو نواز ہی دیتا ہے اور پاکستان کے لیے یہ سال 2016 تھا۔
مگر 2016 کے اختتام تک سیریز اور ٹیسٹ ہارنے کی وجہ سے سب کو یہ یقین ہو چلا تھا کہ انڈیا سب سے بہترین ٹیسٹ ٹیم ہے۔
اپنی سرزمین پر کرکٹ سے محرومی، بار بار کوچز کی تبدیلی، کھلاڑیوں کے لیے نوکریاں، سیلیکشن کا خامیوں سے بھرپور نظام، فنڈنگ کی کمی، قدیم تجزیے، ان فٹ کھلاڑی، کرکٹ کی نئی دنیا سے عدم آگاہی، انتظامی بدنظمی، اندرونی اور بیرونی کرکٹ سیاست، میچ فکسنگ، جیل، اور دہشتگردی۔
یہ فہرست مکمل نہیں ہے، اور نہ ہی ان تمام چیزوں کا احاطہ کرتی ہے جن سے نمٹ کر پاکستانی ٹیم نمبر ون بننے میں کامیاب ہوئی، مگر ہاں یہ چند بڑے مسائل ہیں۔ کسی بھی دوسری ٹیم کو نمبر ون بننے کے لیے اتنے مسائل سے نمٹنا نہیں پڑا ہوگا۔ پاکستان کا سفر اس کے کرکٹ کے باقی تمام پہلوؤں کی طرح منفرد ہے۔
ہو سکتا ہے کہ آپ ان تمام مسائل کے پاکستانی کھلاڑیوں پر مثبت اثرات گنوا دیں، کہ عرب امارات میں زیادہ بہتر سہولیات ہیں، یا یہ کہ نئے زمانے کی کرکٹ سے ہم آہنگ نہ رہنے کی وجہ سے ہی وہ ٹیسٹ کرکٹ میں شاندار کامیابی دکھانے میں کامیاب ہوئے ہیں۔
مگر آخری تین چیزیں، فکسنگ، جیل، اور دہشتگردی ایسی چیزیں ہیں جن میں سے اچھا پہلو ڈھونڈ نکالنا بہت مشکل ہے۔ موت، کرپشن اور جیل کو بھی بھول جائیں، اور صرف یہ سوچیں کہ یہ پہلے سے ٹوٹ پھوٹ کی شکار قومی کرکٹ ٹیم پر کیا اثرات مرتب کر سکتی ہیں۔
ایک روایتی ٹیسٹ ٹیم کی قیادت بہت مشکل کام ہے۔ ہوسکتا ہے کہ آپ کہیں کہ فیلڈ میں ویرات کوہلی کی قیادت کھیل کا مشکل ترین کام ہے، مگر پاکستان ٹیم کی کپتانی کرنا شاید کرکٹ کا مشکل ترین کام تھا، اور لگاتار بحرانوں کے بعد کے ابتدائی چند سالوں میں یہ حالات کرکٹ ٹیموں کی تاریخ کے مشکل ترین حالات میں سے تھے۔
پر اگر پاکستانی کھلاڑی جیل نہ گئے ہوتے، دہشتگردی کی وجہ سے دوسرے ممالک میں کھیلنے پر مجبور نہ ہوئے ہوتے اور صرف ایک نارمل، کبھی کبھار کامیاب ہوجانے والی ٹیسٹ کرکٹ ٹیم ہوتے، تو کیا وہ خراب ریکارڈ رکھنے والے ایک بوڑھے شخص کو اپنا کپتان بناتے؟
اس وقت ان کی بیٹنگ اوسط 33 تھی۔ موجودہ دور کے تمام کھلاڑی، وہ چاہے جس بھی نمبر پر بیٹنگ کریں، ان کی اوسط 34 ہے۔ سو مصباح تمام کھلاڑیوں سے بھی خراب تر اوسط رکھتے تھے۔ وہ بیٹسمینوں کے دور میں اوسط سے کھلاڑی بھی نہیں بلکہ اس سے بھی نیچے تھے۔
وہ اس پوزیشن میں اپنی بیٹنگ کی وجہ سے نہیں تھے، بلکہ اپنی شدید مصباحیت کی وجہ سے تھے۔ ان کی قائدانہ صلاحیتیں ہمیشہ سے واضح تھیں۔ فیلڈ میں حالات تھوڑے دگرگوں ہونے پر ان کے ہاتھ کا اشارہ، ان کا دونوں ہاتھ باہر نکال کر ایک غیر مرئی پیانو بجانا، یہ سب صرف ایک کرکٹ کی چیز نہیں ہے۔
آپ انہیں کسی بھی صورت میں تصور کر سکتے ہیں، وہ ایسے تھے جو ہر کسی کو جذبات کی اونچائیوں سے واپس زمین پر لا کر صرف سامنے موجود چیزوں پر غور کروانے میں کامیاب رہتے تھے۔ جیسے کہ وہ کسی غصیلے بھینسے کے سامنے کھڑے ہوں اور اسے اچانک اپنے ہاتھوں سے روک ڈالیں۔