پاکستان

آرگینک فارمنگ زرعی شعبے کیلئے 'گیم چینجر'

پاکستان میں گذشتہ کچھ عرصے میں آرگینک فارمنگ رجحان دیکھنے میں آیا ہے، حکومت کی عدم توجہ سے اس کا استعمال کم ہے۔

ایک طرف جہاں پاکستان میں موسمیاتی تبدیلیاں زرعی شعبے کے لیے خطرات پیدا کر رہی ہیں اور ملک کو ہر سال تقریباً 20 ارب ڈالر کے نقصان کا سامنا ہے، وہیں آرگینک فارمنگ کا رجحان اس شعبے میں ایک 'گیم چینجر' کی حیثیت رکھتا ہے، لیکن حکومتی عدم توجہ اور بیداری مہم نہ ہونے کے باعث عوام کی بڑی تعداد اس طریقہ کاشت سے لاعلم ہے۔

اگرچہ دنیا بھر میں پہلے ہی آرگینک فارمنگ کو بطور کاروبار وسیع پیمانے پر استعمال کیا جارہا ہے، لیکن پاکستان جیسے ملک میں بھی گذشتہ کچھ عرصے میں اس کا رجحان دیکھنے میں آیا ہے۔

آرگینک فارمنگ کے ذریعے کیمائی اثرات اور آلودگی سے پاک تازہ سبزیوں اور پھلوں کی کاشت کرنا نا صرف ایک آسان عمل ہے، بلکہ اس میں پیداواری لاگت کو کم اور برآمدات کو بڑھا کر ملکی زرمبادلہ کے ذخائر میں کافی حد تک اضافہ بھی کیا جاسکتا ہے۔

زرعی ماہرین کا بھی خیال ہے کہ آرگینک فارمنگ ایک بہترین ذریعہ کاشت ہے جو صحت مند زندگی کے لیے بھی نہایت مؤثر ہے۔

عام طور پر یہ نہ صرف صحت کے لیے مفید ہے، بلکہ کاشتکاری کے لیے بھی ایک سستا طریقہ ہے جس سے زمین کی زرخیری کو طویل عرصے تک قائم رکھنے کے ساتھ ساتھ فصل کو ماحولیاتی تبدیلوں سے پیدا ہونے والے اثرات سے بھی پاک رکھا جاسکتا ہے۔

آرگینک فارمنگ میں کاشتکار مصنوعی کھاد کے بجائے گوبر کی کھاد اور سبز کھادوں پر انحصار کرتے ہیں، جس سے فصل کی پیداواری لاگت میں نمیاں طور کمی ہوتی ہے، جبکہ یہ کیمیکل سے بھی پاک رہتی ہیں۔

آرگینک فارمنگ میں کاشتکار مصنوعی کھاد کے بجائے گوبر کی کھاد اور سبز کھادوں پر انحصار کرتے ہیں — فائل فوٹو

حاشر خواجہ بھی ایک آرگینک کاشتکار ہیں جو اسلام آباد کے علاقے بنی گالہ میں 'حاشر آرگینک' کے نام سے اپنا ایک یونٹ چلا رہے ہیں۔

حاشر کہتے ہیں کہ انھوں نے اس فارم کو اس لیے بنایا تاکہ خود ان کی اپنی فیملی اس سے فائدہ اٹھا سکے اور انہیں وہ تمام غذائی اشیاء مل سکیں جو صحت مند زندگی کے لیے ضروری ہیں۔

انھوں نے کہا کہ اس پروجیکٹ میں اس بات کا خاص خیال رکھا جاتا ہے کہ فصل کو کیسے تیار کرنا ہے اور اس مقصد کے لیے کن کن چیزوں کو استعمال میں لایا جائے۔

ان کا کہنا تھا 'ہم نے اپنے اس فارم ہاؤس میں مرغیاں بھی پال رکھی ہیں اور بعض مرتبہ اگر انہیں یا پھر فصل کو کوئی بیماری لگ جائے تب کچھ مشکلات بھی ہوتی ہیں، لیکن ہم تین سے چار کھادوں کو ملا کر خود اس صورتحال سے نمٹنے کے لیے ادویات تیار کرتے ہیں'۔

حاشر نے بتایا کہ حال ہی میں اسلام آباد کی جناح سپر مارکیٹ میں انھوں نے اپنے فارم میں اُگائی جانے والی سبزیوں کا ایک اسٹال بھی لگانا شروع کیا ہے، مگر وہاں زیادہ تر وہی لوگ آتے ہیں جو آرگینک فارمنگ کے بارے میں آگاہی رکھتے ہیں۔

انھوں نے کہا کہ اس منصوبے کو شروع کرتے ہوئے ہمارا ایک مقصد یہ بھی تھا کہ لوگوں کو اس بارے میں آگاہی فراہم کی جائے تاکہ پاکستان میں آرگینک فارمنگ کا نظام مؤثر طریقے سے فروغ پاسکے۔

آرگینک فارمنگ سے آلودگی اور کیمائی اثرات سے پاک فصل کاشت کی جاسکتی ہے — فائل فوٹو

حاشر خواجہ نے کہا 'ہم چاہتے ہیں کہ لوگوں کو اس کے فوائد بتائیں تاکہ وہ بھی خود اپنی غذائی اشیاء کو کاشت کرسکیں اور اگر کسی کو بھی کسی بات کا خدشہ ہے تو وہ خود فارم پر آکر فصل کا جائزہ لے سکتا ہے'۔

پاکستان میں آرگینک فارمنگ کے حوالے سے ڈان نیوز کے پروگرام 'نیوز وائز' میں گفتگو کرتے ہوئے نیشنل ایگریکلچر ریسرچ سینٹر میں نیشنل آرگینک انسٹی ٹیوٹ کے ڈائریکٹر ڈاکٹر شیر محمد نے کہا کہ اس وقت ملک بھر میں آرگینک فارمنگ کی شرح 3 لاکھ 75 ہزار ایکڑ تک پھیل چکی ہے اور ہزاروں کی تعداد میں کاشتکار اس پر کام کررہے ہیں۔

تاہم ڈاکٹر شیر محمد کا کہنا تھا کہ اس وقت مسئلہ لوگوں میں اس بارے میں آگاہی پیدا کرنے کا ہے، کیونکہ اس طریقے کا استعمال بہت ہی کم ہے، کیونکہ لوگوں کا عام خیال ہے کہ اگر فصل میں مشینی کھاد نہ ڈالی جائے تو پیداوار پر منفی اثر ہوگا۔

انھوں نے کہا 'اس وقت پاکستان میں زیادہ تر لوگ جو آرگینک فارمنگ کر رہے ہیں وہ اپنی پیداوار کو ملک سے بابر خصوصاً دبئی برآمد کررہے ہیں'۔

اس حوالے سے آگاہی فراہم کرنے کے لیے حکومتی کردار کے سوال پر ڈاکٹر شیر محمد نے بتایا کہ بدقسمتی سے اب تک حکومت کی جانب سے اس سلسلے میں کسی قسم کی حمایت حاصل نہیں ہے اور اسی وجہ سے اب تک پاکستان میں کوئی آرگینک سرٹیفیکیشن بھی موجود نہیں۔

اگر حکومت آرگینک فارمنگ پر توجہ دے تو اس سے مقامی کسانوں کو بھی بہت فائدہ ہوگا — فائل فوٹو

جب ان سے یہ پوچھا گیا کہ اگر کوئی دعویٰ کرے کہ اس کے پاس آرگینک پیداوار کا سرٹیفیکٹ موجود ہے تو لوگ کیسے یقین کرسکتے ہیں؟ جس پر ان کا کہنا تھا کہ اس کے دو طریقے ہوتے ہیں جن میں ایک خود آپ کا اعتماد شامل ہے، جبکہ دوسرا یہ کہ اس کام میں ایک تیسرا فریق بھی موجود ہوتا ہے جو کہ گواہ کے طور پر کام کرتا ہے اور یوں پھر کسی بھی چیز کو فروخت کرنے سے پہلے اس کا ٹیسٹ کیا جاتا ہے۔

انھوں نے حکومت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ پاکستان میں آرگینک اشیاء کی پیدوار کے لیے ایسا نیٹ ورک ہونا ضروری ہے جس سے عام کسان بھی فائدہ اٹھا سکیں۔

ان کا کہنا تھا کہ 'اگر حکومت اس پر توجہ دے تو اس کا سب سے زیادہ فائدہ پاکستان کو ہوگا، کیونکہ اس وقت عالمی سطح پر پاکستان کی برآمدات 100 ملین ڈالر کے قریب ہیں جبکہ بھارت ہم سے 100 فیصد آگے ہے'۔

ڈاکٹر شیر محمد نے مزید بتایا کہ پاکستان کے شمال میں 40 فیصد علاقہ ایسا ہے، جو قدرتی طور پر آرگینک ہے اور اگر حکومت کچھ اقدامات کرے تو اس سے ان کسانوں کو فائدہ ہوگا جو سالانہ نقصانات کو برداشت نہیں کر پاتے۔