پاکستان

راؤ انوار پر سابق ایس ایس پی کے بیٹے کے اغوا کا الزام

نیاز کھوسو نے بیٹے کی بازیابی کیلئے ہائی کورٹ میں آئینی درخواست جمع کرادی، جس کی سماعت دو رکنی بینچ کرے گا۔

کراچی: سابق سینئر سپریٹنڈیٹ پولیس (ایس ایس پی) نیاز کھوسو نے ملیر کے ایس ایس پی راؤ انوار اور دیگر پولیس اہلکاروں پر اپنے بیٹے کو غیر قانونی قید میں رکھنے کا الزام لگاتے ہوئے اس کی بازیابی کیلئے سندھ ہائی کورٹ سے رابطہ کرلیا۔

سابق ایس ایس پی نیاز کھوسو نے آئینی پٹیشن ابتدائی سماعت کیلئے سندھ ہائی کورٹ میں جمع کرادی، جس کی سماعت عدالت کا دو رکنی بینچ کرے گا۔

درخواست میں ہوم سیکریٹری، صوبائی پولیس چیف، ایڈیشنل آئی جی پی (ہیڈکوارٹرز)، ایس ایس پی راؤ انوار، ایس ایچ او تھانہ گڈاپ اور دیگر کو فریق بناتے ہوئے عدالت سے اپیل کی گئی ہے کہ وہ ان کے بیٹے، مہراب خان کو پیش کرنے کا حکم دیں، اسے مبینہ طور پر مذکورہ پولیس افسران نے اغوا اور قید کررکھا ہے۔

خیال رہے کہ نیاز کھوسو 36 سالہ پولیس ملازمت مکمل کرنے کے بعد حال ہی میں ریٹائر ہوئے ہیں، انھوں نے اپنی پٹیشن میں موقف اختیار کیا کہ ان کے بیٹے کو 28 مارچ رات 9 بجے بحریہ ٹاؤن کے قریب سے اس وقت اغوا کیا گیا تھا جب وہ سکھر سے کراچی آرہے تھے۔

انھوں نے کہا کہ ایس ایس پی راؤ انوار، غلام سرور ملک کے بیٹے الطاف، تنویر احمد کے بیٹے تیمور اور ایس ایچ او نثار آفریدی دیگر 20 سے 25 مسلح افراد کے ساتھ ایک بکتر بند گاڑی (اے پی سی) اور 6 پولیس موبائلوں پر سوار تھے اور ان کے بیٹے کو زبردستی اے پی سی میں ساتھ لے گئے۔

سابق ایس ایس پی کے وکیل ایڈووکیٹ راشد اے رضوی نے الزام لگایا کہ ایس ایس پی راؤ انوار نے بیٹے کے اغوا کے بعد انھیں دھمکیاں دی تھیں۔

ان کا کہنا تھا کہ واقعے کی فوری رپورٹ پولیس ہیلپ لائن 15 پر اور گڈاپ تھانے کے ایس ایچ او کو دی گئی لیکن ان کے بیٹے کو بازیاب کرانے کیلئے کوئی اقدام نہیں کیا گیا۔

درخواست گزار کا کہنا تھا کہ بعد ازاں ملیر کے ڈسٹرکٹ اور سیشن جج نے ان کی درخواست پر گڈاپ تھانے کے ایس ایچ او کو راؤ انوار اور ان کی ٹیم کے اراکین کے خلاف ایف آئی آر درج کرنے کی ہدایت کی تھی۔

سابق ایس ایس پی نے اپنے بیٹے کے اغوا کے محرکات کی تفصیلات بتاتے ہوئے کہا کہ ان کا بیٹا اینٹی انکروچمنٹ فورس میں سب انسپکٹر ہے جس نے اپنے ڈائریکٹر کے حکم پر ادارے کے دیگر اسٹاف کے ہمراہ سچل تھانے کی حدود میں اسکیم 33 پر ریاست کی زمین پر تعمیر ہونے والی تجاوزات کو ہٹانے کیلئے ایک آپریشن میں حصہ لیا تھا اور ملزمان کو گرفتار کر کے قبضہ مافیا کے خلاف اینٹی انکروچمنٹ قانون کے تحت مقدمہ درج کیا تھا۔

درخواست گزار کا کہنا تھا کہ اس آپریشن میں اینٹی انکروچمنٹ فورس پولیس کے زون ون اور ٹو کے ایس ایچ اورز نے علاقے کے ڈی ایس پی خالد خان اور سچل کے ایس ایچ او انسپکٹر ناصر آفریدی سے پولیس مدد کیلئے رابطہ کیا تھا۔

تاہم نہ صرف ان دونوں پولیس افسران نے مدد فراہم کرنے سے انکار کیا بلکہ قبضہ مافیا کی مدد سے انیٹی انکروچمنٹ آپریشن کو روک دیا، جن کے نام 2 جنوری 2017 کو انسپکٹر جنرل آف پولیس کو بھیجی گئی ایف آئی آر اور منسلک شکایت میں درج ہیں۔

درخواست گزار کا کہنا تھا کہ ڈی ایس پی اور ایس ایچ او کے خلاف تحریری شکایت کے جواب میں سچل پولیس نے ان کے بیٹے کے خلاف جھوٹی ایف آئی آر درج کی۔

سابق ایس ایس پی نے اپنی درخواست میں عدالت کو بتایا کہ اغوا کار اپنی غیر قانونی سرگرمیوں کے حوالے سے معروف ہیں جن میں جعلی پولیس مقابلے، ماورائے عدالت قتل، جبری گمشدگیاں، زمینوں پر قبضے، بھتہ اور دیگر جرائم شامل ہیں اور 'وہ خود کو حاصل پولیس اختیارات کا غلط استعمال کررہے ہیں'۔

انھوں نے کہا کہ وہ اور ان کا خاندان اپنے بیٹے کی زندگی کے حوالے سے تشویش میں مبتلہ ہیں اور عدالت سے درخواست کی کہ وہ مذکورہ پولیس افسران کو حکم دے کہ ان کے بیٹے کو عدالت میں پیش کیا جائے۔

یہ رپورٹ 5 اپریل 2017 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی