'راستہ': ساحر لودھی کی بیروزگاری کی کہانی
ساحر لودھی کی نئی فلم 'راستہ' سینما گھروں میں نمائش کے لیے پیش کر دی گئی، کیا آپ یہ فلم دیکھنے جائیں گے؟ لیکن اس سے بھی زیادہ اہم سوال یہ ہے کہ میں نے یہ فلم کیوں دیکھی؟
تو جواب یہ ہے کہ میرے لیے ساحر لودھی کا 'اپنی محبت کا اسیر ہونا' کافی دلچسپ ہے، واقعی ساحر لودھی کے پاس ایک 'ناقابل برداشت' قسم کا 'جادو' ہے۔
جب میں نے اپنی ایک دوست سے پوچھا کہ کیا وہ میرے ساتھ چل کر یہ فلم دیکھے گی تو اس نے صاف انکار کر دیا، میں نے سوچا شاید مسئلہ فلم 'راستہ' میں نہیں میرے ساتھ جانے میں ہے۔
ایک اور دوست (سالک) میرے ساتھ فلم دیکھنے پر رضامند ہوگیا (کیوں کہ اس کا ٹکٹ میں نے خریدا تھا)۔
لیکن میرے لیے تو یہ فلم کسی ٹریٹ سے کم نہیں تھی، 'میرے ہیرو' ساحر لودھی نے اس فلم میں صرف 'ہیرو' کا کردار ہی ادا نہیں کیا بلکہ وہ ولن، ہدایت کار، اسکرین رائٹر، پروڈیوسر اور مشترکہ پروڈیوسر بھی خود ہی تھے۔
فلم کا پلاٹ
فلم 'راستہ' کی کہانی دو حصوں پر مبنی ہے، جنہیں اس طرح سے ڈیزائن اور پیش کیا گیا کہ ساحر لودھی کا مکمل ٹیلنٹ اس فلم میں نظر آجائے۔
'سمیر' ساحر لودھی کا تھکا دینے والا کردار ہے، جو اپنے بھائی شاہ نواز (اعجاز اسلم) اور ان کی اہلیہ (ثناء فخر) کے ساتھ کراچی منتقل ہوجاتا ہے۔
اعجاز اسلم کا کردار فلم میں ان کی جگہ کوئی درخت یا پتھر بھی کرسکتا تھا، تاہم ایگزیکٹو ڈائریکٹر ساحر لودھی نے انہیں کاسٹ کرنے کا فیصلہ کیا۔
سمیر اپنی بھابی سے بے حد قریب تھا اور شاید کوئی انہیں دیکھ کر یہی کہے گا کہ یہ 'کچھ زیادہ' ہی قریب تھے۔
شاہ نواز ایک پولیس افسر ہے جس کی ایمانداری ان کی زندگی میں موجود ہر شخص کے لیے کچھ غیر معمولی ہے۔
سمیر اور اس کے بھائی کے درمیان رشتہ بالکل ایک پتھر کی طرح ہے، جس کی وجہ سمیر کا 8 سال تک بےروزگار رہنا ہے۔
فلم کے پہلے حصے میں سمیر کو ان کے بھائی اپنے گھر سے بے دخل کردیتے ہیں، جس کی وجہ سے ان دونوں کے درمیان نفرت جنم لے لیتی ہے۔
فلم کے دوسرے حصے میں سمیر ایک گینگسٹر بننے کا فیصلہ کرتا ہے جو اپنے ساتھ غلط کرنے والے ہر شخص سے بدلہ لینے کا ارادہ کرچکا ہے۔