پاکستان

عزیر بلوچ، پولیس مقابلوں اور قتل کے 5 مقدمات میں نامزد

لیاری کے گینگسٹر کو 2016 میں گرفتار کیا گیا، ان پر قائم مقدمات میں ارشد پپو اور ایک ایس ایچ او کو قتل کرنے کا الزام ہے

کراچی: انسداد دہشت گردی کی عدالت میں کالعدم پیپلز امن کمیٹی (پی اے سی) کے چیف عزیر جان بلوچ کو 7 مقدمات میں نامزد کردیا گیا۔

پی اے سی کے چیف کو لیاری گینگ وار کے دیگر ملزمان کے ساتھ، جن میں امین بلیدی، رضوان عرف رضوانی، عبدالغفار عرف ماما اور زبیر بلوچ شامل ہیں، قتل کے 5 مقدمات نامزد کیا گیا، جن میں ایک ایس ایچ او سمیت 3 پولیس اہلکاروں کا قتل بھی شامل ہے۔

یہ سماعت کراچی سینٹرل جیل میں ہوئی جہاں ٹرائل کرنے والے جج نے ملزم کے خلاف استغاثہ کی جانب سے پیش کی گئی چارج شیٹ پڑھ کر سنائی تاہم ملزم نے صحت جرم سے انکار کیا اور مقدمے کے دفاع کی درخواست کی۔

جس پر جج نے استغاثہ کے گواہان کو سمن جاری کیے اور انھیں ہدایت کی کہ وہ 24 اپریل کو بیانات ریکارڈ کرانے کیلئے عدالت میں پیش ہوں۔

عزیر جان بلوچ، جنھیں قتل کے متعدد مقدمات کا سامنا ہے، کو پُراسرار حالات میں جنوری 2016 کو گرفتار کیا گیا تھا، ان پر قائم مقدمات میں حریف گینگسٹر ارشد پپو کا قتل کیس بھی شامل ہے۔

ابتدا میں عزیر بلوچ کو رینجرز نے 90 روز تک حراست میں رکھا اور تفتیش کے بعد پولیس کے حوالے کردیا تھا، ملزم اس وقت کراچی کی سینٹرل جیل میں قید ہے۔

عزیر بلوچ پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) سے قریب تعلقات کی وجہ سے معروف ہیں، اس سے قبل انھیں انسداد دہشت گردی کی عدالت کی جانب سے 40 مقدمات میں اشتہاری قرار دیا جا چکا ہے۔

لیاری میں 2012 میں ہونے والے پولیس آپریشن کے دوران عزیر بلوچ اور ان کے دیگر ساتھیوں پر قتل، اقدام قتل اور پولیس حملوں سے متعلق 35 مقدمات درج کیے گئے تھے۔

اس کے علاوہ وہ لیاری سے تعلق رکھنے والے پی پی پی کے ایک رکن قومی اسمبلی اور کچھ پولیس افسران کے ساتھ ارشد پپو، اس کے بھائی یاسر عرفات اور ساتھی جمعہ شیرا قتل کیس کے ٹرائل کا سامنا بھی کررہے ہیں، انھیں مارچ 2013 میں ڈیفنس سے اغوا کے بعد لیاری میں قتل کردیا گیا تھا۔

جند اللہ دہشت گرد کو پیش کرنے کی ہدایت

انسداد دہشتگردی کی مذکورہ عدالت نے ایک علیحدہ مقدمے میں سندھ کے ہوم سیکریٹری کو ہدایت کی کہ 11 انتہائی خطرناک دہشتگردوں کو عدالت کے سامنے پیش کیا جائے تاکہ وہ 2004 میں تھانے پر ہونے والے حملے کے کیس کے ٹرائل کا سامنا کرسکیں۔

ان 11 افراد میں عطاء الرحمٰن عرف ابراہیم، شاہد احمد باجوہ، یعقوب سعید، عزیر احمد، شعیب صدیقی، دانش انعام، نجیب اللہ، خرم سیف اللہ، شہزاد مختار، خالد راؤ اور عدنان شاہ شامل ہیں ان سب کا تعلق کالعدم جنداللہ سے ہے، ان ملزمان کو 2004 میں کلفٹن میں کور کمانڈر کراچی کے قافلے پر حملے کے کیس میں موت کی سزا سنائی جاچکی ہے۔

اس کے علاوہ یہ تمام ملزمان قاسم طوری کے ساتھ اپریل 2014 میں گلستان جوہر تھانے پر حملہ کرکے ایک سب انسپکٹر اور چار پولیس اہلکاروں کو ہلاک کرنے کے کیس میں بھی نامزد ہیں۔

عدالت کی جانب سے ان ملزمان کو پیش کرنے کیلئے متعدد مرتبہ احکامات جاری کیے گئے ہیں لیکن جیل حکام انھیں پیش کرنے میں ناکام رہے ہیں، جیل حکام نے عدالت کو بتایا کہ ملزمان اس وقت حیدرآباد جیل میں قید ہیں۔

جس پر عدالت نے ایک خط کے ذریعے سندھ کے ہوم سیکریٹری کو ہدایت کی کہ ان ملزمان کو حیدآباد سے کراچی جیل منتقل کیا جائے تاکہ 13 سال پرانے کیس کے ٹرائل کے دوران ان کی موجودگی کو یقینی بنایا جاسکے۔

علاوہ ازیں عدالت نے ایک ضروری کارروائی کے تحت استغاثہ کی جانب سے پیش کی گئیں دستاویزات کی کاپی قاسم طوری کو فراہم کیں اور تفتیشی افسر کو ہدایت کی کہ مفرور ملزمان کو اشتہاری قرار دینے کے طریقہ کار اور جائیداد کی تفصیلات آئندہ کی سماعت تک مکمل کرلی جائیں۔

یہ رپورٹ 2 اپریل 2017 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی