نقطہ نظر

بلوچ ناراضگی اور پاک ایران گیس پائپ لائن میں امریکی مفاد

ہمارے خطے میں کیا ہونا ہے اس کا فیصلہ عالمی قوتوں کے قومی مفادات ہی کرتے ہیں۔
لکھاری بلوچستان کے سابق آئی جی پولیس ہیں۔

سی پیک منصوبوں کی تکمیل کے ساتھ ہی پاکستان ایشیا کا اور گوادر پاکستان کا ٹائیگر بن جائے گا، یہ الفاظ تھے نواز شریف کے جو انہوں نے بلوچستان کے بندرگاہ شہر میں ایک عوامی جلسے سے خطاب کے دوران کہے۔ انہوں نے کہا کہ، "میں پہلا وزیر اعظم ہوں جس نے گوادر میں ایک پوری رات قیام کیا، گزشتہ لیڈران نے اس علاقے کو نظر انداز کیے رکھا تھا۔"

انہوں نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ شورش زدہ علاقے میں بھی امن ان کے ہی دور حکومت میں بحال ہوا، جس کا سہرا انہوں نے مسلح افواج، پولیس، مقامی انتظامیہ اور قوم کے سر پر سجایا۔

کاش وہ قوم کو قومی ایکشن پلان کے اس حصے پر عمل کرنے سے قبل قوم کو اعتماد میں لیتے جس کا تعلق، اپنے ہی وطن میں ’کم درجے کی شورش' میں شامل بلوچ ذیلی قوم پرستوں کے ساتھ مفاہمت سے ہے۔

سابق وزیر اعلٰی ڈاکٹر عبدالمالک نے اس مرحلے کا آغاز کیا تھا اور یورپی محفوظ ٹھکانوں میں بیٹھے چند ریاست مخالف لیڈران سے بھی ملاقات کی تھی۔ کیا کوئٹہ اور اسلام آباد میں موجود پالیسی سازوں نے مفاہت کی راہ ہموار کرنے کے لیے اعتمادی سازی کے اقدامات کیے؟ مجھے ڈر ہے کہ سیکیورٹی اسٹیبلشمنٹ کو پختہ یقین ہے کہ کسی بھی حد کی شدت پسندی یا شورش کو صرف طاقت اور جبر سے ٹالا جا سکتا ہے۔

دوسری جانب، لندن میں مقیم، خود ساختہ جلا وطن، خان آف قلات میر سلیمان احمد زئی پاکستان اور چین کو ’لٹیرے’ قرار دے رہے ہیں اور سی پیک کی تکمیل کو روکنے کی خاطر ہندوستان سے قربت بڑھا رہے ہیں۔

حال ہی میں انہوں نے میڈیا کو بتایا کہ مودی ’بلوچستان کے دوست’ ہیں۔ اس کے بعد بلوچ لبریشن آرمی کے رہنما حیر بیار مری بھی ہیں، وہ بھی لندن میں محفوظ ٹھکانے میں مقیم ہیں اور کوئٹہ اور سبی کے نزدیک واقع بولان پاس کے علاقے میں بے چینی پیدا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

اسی طرح، برہمداغ بگٹی جینیوا میں اپنے ٹھنڈے ٹھکانے سے سوئی اور ڈیرہ بگٹی کے علاقوں میں آگ کا کھیل کھیلنے کے لیے اپنے پیروکاروں کو اکسا رہے ہیں۔ یاد رکھیں، یہ وہ بلوچ سردار ہیں جو، یورپ میں آرامدہ زندگی بسر کرتے ہوئے، بلوچستان کے غریب اور مظلوم عوام کو اپنے فرمان پر عمل کرنے کے لیے اکسا نہیں سکتے۔

ریاستی ایجنسیوں کو اصل خطرے کا سامنا باغی بلوچ نوجوانوں اور بلوچ لبریشن فرنٹ کی قیادت سے ہے جو تربت، گوادر، پنجگور اور خاران کے پہاڑی علاقوں میں بسیرا کیے ہوئے ہیں۔

ایک ذہین، متوسط طبقے کے طالب علم ڈاکٹر اللہ نذر نے 2006 میں ریاست مخالف نوجوانوں کی سربراہی کا آغاز کیا۔ یہ نوجوان غصیلے بلوچ مرد و خواتین وہ ہیں جنہیں ہماری ریاستی سلامتی کے اسٹیک ہولڈرز کی توجہ چاہیے۔ انہیں تنہا چھوڑنے کے بجائے ان کا احترام کرنے اور ان کے اختلاف رائے کو سننے کے لیے کوششیں کی جائی چاہئیں۔ ان کے ترجمان دراصل وہ بلوچ سیاستدان ہیں جنہوں نے گولی کے بجائے ووٹ کا انتخاب کیا اور 2013 کے انتخابات میں حصہ بھی لیا۔ یہ منتخب لیڈران پاکستان کے خلاف نہیں ہیں۔

10 جنوری 2016 کو بلوچستان نیشنل پارٹی-مینگل کی جانب سے اسلام آباد میں سی پیک پر ملٹی پارٹی کانفرنس کا انعقاد کیا گیا جس میں یہ قراردادیں منظور کی گئیں: پہلی، گوادر پورٹ کے میگا منصوبے کا تمام تر اختیار آئین کے مطابق بلوچستان کے حوالے کر دیا جائے۔ بلوچستان کے وسائل کے ملکیتی حقوق اور ان سے جڑے فیصلوں کے اختیارات کو تسلیم کرنا چاہیے۔

دوسرا، 28 مئی 2015 کو وزیر اعظم کی جانب سے منعقد کثیر الجماعتی کانفرنس میں منظور ہونے والی متفقہ قرارداد پر لفظی اور عملی طور عمل درآمد ہونا چاہیے۔ سی پیک کا مغربی راستہ پہلے مکمل کرنا چاہیے اور خیبر پختونخوا، پنجاب اور بلوچستان کے پسماندہ علاقوں میں رہنے والے لوگوں کو سی پیک میں سے ہر لحاظ سے فوائد فراہم کیے جائیں۔

تین، بلوچوں کو اپنے ہی صوبے میں اقلیت بننے سے روکنے کے لیے اقدامات کیے اٹھائے جائیں۔ گوادر میں نئے بسنے والوں کو گوادر سے شناختی کارڈز، مقامی سرٹیفکیٹس اور پاسپورٹس کے اجرا پر مکمل طور پر پابندی عائد ہونی چاہیے تا کہ ان کے نام انتخابی فہرستوں میں شامل نہ ہوسکیں۔

چوتھی، پینے کے صاف پانی کی سہولیات میسر کی جائیں، ہسپتالوں، اسکولوں، ٹیکنیکل کالجوں اور بندرگاہوں کے لیے باہنر افراد کے لیے سینٹرز اور میری ٹائم یونیورسٹی قائم کی جائیں، اور ان میں گوادر کے لوگوں کو اولیت دی جائے۔

پانچ، گوادر پورٹ اور اس سے جڑے بڑے منصوبوں میں ملازمتوں میں ترجیح مقامی افراد کو دی جائے۔

چھ، مقامی مچھیروں کو معاشی محرومی سے بچانے کی خاطر آمدن کے متبادل ذرائع فراہم کیے جائیں۔ گوادر کے لوگوں پر عائد تمام پابندیاں، بشمول سیاسی سرگرمیوں پر غیر اعلانیہ پابندی، ہٹا دی جائیں اور انہیں نقل و حرکت کی آزادی حاصل ہو۔

سات، گوادر کے لوگوں کو مفت میڈیکل سہولیات، بیرون ملکوں میں ٹیکنیکل تربیت فراہم کی جائے اور دیگر صوبوں کے معیاری تعلیمی اداروں میں اسکالرشپس فراہم کی جائیں۔

آٹھ، گوادر کی پسماندگی دور کرنے کے لیے اس کے رہائشیوں کو مفت تعلیم اور صحت کی سہولیات فراہم کی جائیں۔ انہیں تین سالوں تک ٹیکس اور یوٹیلیٹی بلوں سے مستثنیٰ قرار دیا جائے۔

نو، ہزاروں کنال پر مشتمل مقامی لوگوں کی ابائی زمین کی سرکاری ضبطگی ناانصافی ہے اور ان زمینوں کو ان کے حقیقی مالکان کو لوٹا دی جائے۔

دس، گوادر میں منصوبوں میں سرمایہ کاری کے حوالے سے مقامی لوگوں کی پارٹنرشپ کو یقینی بنانے کے لیے قانون سازی کی جائے۔ اپنے حقوق اور وقار کے تحفظ کے لیے سیکیورٹی فورسز میں شامل کیا جائے۔

مرکزی دھارے کی مختلف سیاسی قوتوں کی جانب سے پیش کردہ یہ قراردادیں ایک اتفاق کو ظاہر کرتی ہیں جن پر ریاست کو توجہ دینی چاہیے تا کہ ان بگڑتے زخموں کو ٹھیک کیا جا سکے جن کی وجہ سے بلوچ دراندازی کو ہوا ملی۔

ایک اور غیر معمولی اقدام گوادر کو ایرانی پورٹ سٹی چاہ بہار سے جوڑنے کے لیے ریلوے ٹریک بچھانے کا فیصلہ تھا۔ وزیر اعلٰی ثنااللہ زہری اور ایرانی صوبے سیستان-بلوچستان کے گورنر، آقا علی اوساط ہاشمی کی سربراہی میں ایرانی وفد 11 جنوری 2016 کو اس معاہدے پر متفق ہوئے۔

دونوں جانب کے افسران نے منشیات کی اسمگلنگ، غیر قانونی بارڈر کراسنگ وغیرہ پر گفتگو کی، اور بارڈر تجارت، ایک نئی شپنگ سروس اور گوادر سے ایرانی شہروں میں پروازوں کے حوالے سے منصوبہ بندی کرنے کا فیصلہ بھی کیا۔

یہ سب مجھے ناقابل یقین سا لگتا ہے۔ مجھے امریکی سفارت کار ریان کروکر یاد آ گئے جن سے میری الوداعی ملاقات 2007 میں ہوئی تھی، تب میں آئی جی پی بلوچستان تھا۔ میں نے ملاقات کے دوران پاک ایران گیس پائپ لائن کا موضوع نکالا۔

انہوں نے کہا کہ بلوچستان میں امن و امان کی خراب صورتحال کی وجہ سے اس منصوبے پر عمل کرنا آسان نہیں ہوگا۔ میں نے انہیں بتایا کہ پاکستانی سیکیورٹی فورسز محفوظ انداز میں پائپ لائن کو گوادر سے کراچی کی ساحلی پٹی کے ساتھ ساتھ گزارنے کی صلاحیت رکھتی ہیں۔ تھوڑی ٹال مٹول کے بعد، انہوں نے نا چاہتے ہوئے تسلیم کر ہی لیا کہ یہ منصوبہ امریکا کے مفادات میں نہیں تھا۔

اور بات ختم۔ ہمارے خطے میں کیا ہونا ہے اس کا فیصلہ عالمی قوتوں کے قومی مفادات ہی کرتے ہیں۔ ہمیں یہ سوچنا چاہیے کہ علاقائی اعتبار سے ہمارے لیے کیا بہتر ہے۔ ایک مضبوط سی پیک تجارتی پارٹنر کے طور پر پڑوسی ملک ایران ہمارے لیے نہایت اہم ہے۔

اسٹریٹجک اعتبار سے اہم جگہ پر واقع اور وسائل سے بھرپور صوبہ بلوچستان تمام اسٹیک ہولڈرز، خاص طور پر وفاقی حکومت اور سب سے طاقتور فوجی اسٹیبلشمنٹ، سے پختہ، طویل المدتی فیصلے کرنے کا مطالبہ کر رہا ہے۔ بلوچوں کی اواز کو اب مزید نظر انداز نہیں کیا جانا چاہیے۔

یہ مضمون یکم اپریل 2017 کو شائع ہوا۔

انگلش میں پڑھیں۔

طارق کھوسہ

لکھاری سابق پولیس افسر ہیں۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔