پاکستان

کیا پاکستان اور روس کا نیا اتحاد بن رہا ہے؟

دونوں ملکوں کے تعلقات کی تاریخ کو مدنظر رکھا جائے تو روسی فوجی وفد کے دورہ پاکستان سے کوئی نتیجہ اخذکرنا قبل ازوقت ہوگا۔

چند روز قبل روس کے ڈپٹی چیف آف جنرل اسٹاف کرنل جنرل اسراکوف سرگی یوریوچ نے شمالی و جنوبی وزیرستان کا دورہ کیا تھا اور ان کا استقبال کور کمانڈر پشاور لیفٹیننٹ جنرل نذیر احمد نے کیا تاہم تجزیہ کار اس دورے کو پاک روس دوستی میں ہونے والی پیش رفت کے طور پر دیکھ رہے ہیں۔

لیکن اگر دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات کی تاریخ کو مدنظر رکھا جائے تو روسی فوجی وفد کے حالیہ دورہ پاکستان سے کوئی نتیجہ اخذ کرنا قبل از وقت ہوگا۔

روسی فوجی وفد نے گزشتہ دنوں وزیرستان کا دورہ کیا—فوٹو آئی ایس پی آر

افغانستان میں تعینات رہنے والے پاکستان کے سابق ملٹری اتاشی بریگیڈیئر (ر) سعد محمد نے اس حوالے سے نجی ٹی وی دنیا نیوز کے ایک پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’یہ ایک دلچست اور غیر معمولی پیش رفت ہے، دونوں ملکوں کے درمیان عسکری تعلقات تیزی سے آگے بڑھ رہے ہیں تاہم وہ اس سطح پر نہیں پہنچے کہ ہم اسے ایک اتحاد کہہ سکیں‘۔

یہ بھی پڑھیں: روسی فوجی وفد کا دورہ شمالی و جنوبی وزیرستان

بریگیڈیئر سعد نے 1980 کی دہائی میں پاکستان اور روس کے درمیان رہنے والی ’پراکسی وار‘ کا بھی تذکرہ کیا جب دونوں ممالک افغانستان کی جنگ میں شریک تھے۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان اور روس کے درمیان تعلقات میں نیا موڑ 2014 میں آیا جب روس کے وزیردفاع سرگئی شوئیگو نے نومبر میں پاکستان کا دورہ کیا تھا اور پاکستان کے ساتھ دفاعی تعاون کا معاہدہ کیا تھا۔

پاکستان اور روس کے درمیان بڑھتے ہوئے دفاعی تعاون کے ھوالے سے بات کرتے ہوئے بریگیڈیئر سعد نے کہا کہ ’گزشتہ برس ہونے والی مشترکہ مشقیں دونوں ملکوں کے مشترکہ مفادات کی تازہ مثال ہے جبکہ اس کے علاوہ دونوں ملکوں کی بحری افواج نے 2014 اور 2015 میں عریبین مون سون مشقوں میں بھی حصہ لیا تھا‘۔

ستمبر 2016 میں روسی فوجیوں نے پاکستان کا دورہ کیا تھا— فوٹو بشکریہ ڈی جی آئی ایس پی آر ٹوئیٹر

خیال رہے کہ گزشتہ برس ستمبر میں ہونے والی فوجی مشقوں میں پاکستان اور روس کے تقریباً 200 فوجیوں نے شرکت کی تھی، ان مشقوں کو ’دروزبھا 2016‘ کا نام دیا گیا تھا جس کا اردو ترجمہ ’دوستی‘ ہے جبکہ ان مشقوں میں پاکستان اور روس کے اسپیشل فورسز نے قریبی تعاون کا مظاہرہ کیا تھا۔

اس کے علاوہ رواں برس فروری میں ہونے والی ’امن 2017‘ بحری مشقوں میں روس کا سب سے بڑا اینٹی سب میرین جنگی جہاز ’سیورمورسک‘ بھی پاکستان آیا تھا جبکہ 2015 میں پاکستان نے روس سے ایم آئی 35 گراؤنڈ اٹیک ہیلی کاپٹرز کی خریداری کی بھی تصدیق کی تھی۔

مزید پڑھیں: تاریخ میں پہلی بار روسی فوج کی پاکستان آمد

بریگیڈیئر سعد نے اس بات کی بھی نشاندہی کی کہ اگر پاکستان اور روس کے درمیان کوئی اتحاد ہوا بھی تو وہ چین کے بغیر نہیں ہوگا کیوں کہ چین دونوں ملکوں کا مشترکہ دوست ہے۔

انہوں نے کہا کہ ’پاکستان اور روس کے درمیان اتحاد کا تصور ان کے مشترکہ دوست چین کے بغیر ممکن نہیں‘۔

بریگیڈیئر سعد نے تو یہاں تک بھہ کہہ دیا کہ اس ممکنہ اتحاد میں ترکی بھی دلچسپی لے رہا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ’ترکی بھی اس گروپ کا حصہ بننے کا خواہاں ہے اور درحقیقت مجھے یہ معلوم ہے کہ ترک صدر طیب اردگان نے اس معاملے میں اپنی خواہش ظاہر کی ہے‘۔

بریگیڈیئر سعد کا کہنا تھا کہ ’یہ ترکی، روس، چین اور پاکستان کے درمیان چار فریقی اتحاد ہوگا جبکہ اس حوالے سے امریکا میں بہت زیادہ بے چینی ہے اور ہم اس معاملے پر امریکا کے خدشات کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا کیوں کہ وہ اس وقت افغانستان میں موجود ہے‘۔

یہ بھی پڑھیں: روس کی پاکستان کے ساتھ پہلی بار فوجی مشقیں

انہوں نے کہا کہ پاکستان میں روس کی بڑھتی ہوئی دلچسپی کی وجہ خطے میں امریکا اور روس کے درمیان جاری رسا کشی ہوسکتی ہے۔

بریگیڈیئر سعد نے یاددہانی کرائی کہ ’ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ 2016 میں افغانستان میں مفاہمتی عمل کو آگے بڑھانے کے لیے چین، پاکستان، امریکا اور افغانستان پر مشتمل چار فریقی اتحاد موجود تھا لیکن اس کے باوجود روس نے اس اتحاد سے خطرہ محسوس کرتے ہوئے افغانستان کے معاملے پر علیحدہ سے مذاکرات شروع کیے‘۔

انہوں نے کہا کہ ’جس طرح امریکا افغانستان کو اپنے زیر اثر رکھنا چاہتا ہے روس بھی افغانستان پر اپنا اثر و رسوخ بڑھانا چاہتا ہے اور پاکستان کو افغان طالبان سے ڈیلنگ کا تجربہ حاصل ہے‘۔

آخر میں بریگیڈیئر سعد نے کہا کہ ’پاکستان کی افغانستان اور طالبان کے حوالے سے تاریخ اور چین کے ساتھ دوستی روس کی پاکستان میں دلچسپی کی دو اہم وجوہات ہیں‘۔