بادشاہی مسجد — تصویر فہد شاہ
شام سے پہلے تک دن بہت سہانا گزرا تھا، شام کو ایک خود کش بمبار نے پنجاب اسمبلی کے قریب احتجاجی مظاہرے کی جگہ خود کو اڑا دیا، جس کے نتیجے میں دو سینئر پولیس افسران سمیت 16 افراد مارے گئے۔ دھماکے کی جگہ سے ایک بلاک دور، قلعہ بند شہر میں رکشہ پر جانے سے قبل میں نے اور شکیل نے گاڑی پارک کی تھی۔
صبح کے وقت میں نے ان لوگوں کو احتجاج کرتے ہوئے، گروپ کی صورت میں آتے ہوئے، نعرے بلند کرتے ہوئے اور ایک جگہ جمع ہوتے ہوئے دیکھا تھا۔ مگر اب میں افراتفری کا منظر دیکھ رہا تھا۔ دھماکہ اسی وقت ہوا جب ہم اپنی گاڑی کی طرف لوٹ رہے تھے، جہاں ایک پولیس کی گاڑی اور ایمبولینس پہنچ چکی تھی۔
میرا فون ڈیڈ ہو چکا تھا اور ماحول میں بے چینی بڑھ رہی تھی اور سائرنوں کی آوازیں تھیں۔ ہم نے گاڑی کو مال روڈ سے گزارا جہاں ہر سو ٖشدید غم و غصہ پھیلا تھا۔ ہر جگہ پولیس اہکار کھڑے تھے اور سڑکیں بلاک کر دی گئی تھیں۔ ہم نے دھماکے کی جگہ دیکھی، جہاں نیوز چینلز کی او بی وینز اور فلیش مارتے کیمروں کے ہمراہ فوٹوگرافرز کی بھیڑ جمع تھی۔
میں ایک کیفے پر اپنا فون چارج کرنے میں کامیاب رہا اور میں نے دیکھا کہ لاہور میں ہونے کا مطلب کیا کچھ ہو سکتا ہے۔ میری خیریت معلوم کرنے کے لیے تمام جگہوں سے میسجز اور کالز آنے لگیں۔ شکیل کی مرہون منت، کہ جس نے مجھے کہا کہ "جانے سے پہلے تھوڑی دیر کے لیے چہل قدمی کرتے ہیں"، ورنہ ہم دونوں کے لیے حالات کچھ مخلتف رہے ہوتے۔
گزشتہ ہفتے صرف لاہور شہر میں ہی دھماکہ نہیں ہوا تھا۔ 16 فروری کو سیہون میں لال شہباز قلندر کے مزار پر بھی ایک خود کش بم دھماکہ ہوا تھا، جس کے نتیجے میں 90 افراد مارے گئے تھے جن میں 21 بچے بھی شامل تھے۔ داعش نے دھماکے کی ذمہ داری قبول کی تھی۔ لال شہباز قلندر ایک صوفی بزرگ، فلسفی اور شاعر تھے جن تمام مذاہب کے لوگ عقیدت رکھتے ہیں۔
پاکستان کے بارے میں جو سب سے بڑی حیرانی کی بات ہے وہ یہ کہ کس طرح خوبصورت لمحوں پر ایک خوفناک حقیقت ضربیں لگا دیتی ہے۔ کچھ کشمیر کی صورتحال کی ہی طرح، جہاں آپ سیاسی غیر یقینی اور خطرناک ناانصافیوں کے درمیان خوشیوں کے مختصر لمحے تلاش کرتے ہیں۔
ان خوشیوں کے لمحوں میں سے ایک، پرانے دوستوں اور ان لوگوں سے ملاقاتیں تھیں جن سے میں سالوں سے جڑا رہا ہوں۔ اسلام آباد میں موجود اپنے دوست سے میں نے گھنٹوں بیٹھ کر سیاست اور افغان مہاجرین کے بحران کے بارے میں باتیں کی، اس دوست سے میری پہلی بار ملاقات لندن میں ہوئی تھی۔ اس نے مجھے بتایا کہ ملک میں بڑھتی دہشتگرد کارروائیوں کے نتیجے میں پاکستان نے کیوں افغان مہاجرین کے حوالے سے سخت گیر مؤقف اپنایا ہے۔
بطور کشمیری، اگر آپ لاہور یا اسلام آباد میں ہیں، آپ کی نسل آپ کی شناخت ہے اور پاکستانی سننا چاہتے ہیں کہ کمشیر اپنی زندگی کے بارے میں کہنا چاہتے ہیں۔ ایک سیکیورٹی گارڈ یہ جاننا چاہتا تھا کہ ایک ماہ طویل کرفیو کے دوران ہم کھانے پینے کی اشیا خرید پاتے ہیں یا نہیں۔
ایک ٹیکسی والا جاننا چاہتا تھا کہ مسئلہ کشمیر حل کیوں نہیں ہو رہا۔ ایک دکاندار جاننا چاہتا تھا کہ میرے لیے یہاں آنا آسان ثابت ہوا یا مشکل۔ ایک لائبریرین نے دوبارہ آنے اور اس کے ساتھ کھانا کھانے کی دعوت دی۔
میری آمد کی قانونی طور پر تصدیق کرنے کے دوران پولیس افسر جاننا چاہتا تھا کہ میں نے سری نگر میں موجود حضرت بل میں موجود مقدس باقیات دیکھنے کا شرف حاصل کیا ہے یا نہیں۔ ایک طالب علم جاننا چاہتا تھا کہ میرے سائیڈ رہنے والے کشمیری، پاکستانی سائیڈ میں رہنے والے کشمیریوں کو کشمیری تصور کرتے ہیں یا نہیں۔
ایک کشمیری کے لیے، آپ کی خاص انداز میں خاطر تواضع کی جاتی ہے، اتنی خاطر تواضع آپ کو کسی دوسری جگہ دیکھنے کو نہیں ملے گی۔ آپ محسوس کرتے ہیں کہ یہ اس ملک اور اس کے لوگوں کا کشمیریوں سے کسی قسم کا تعلق جڑا ہوا ہے۔
میری ملاقات ایسے کئی پاکستانیوں سے ہوئی جنہوں نے کہا کہ وہ چاہتے ہیں ان کی حکومت کشمیر کے لیے کچھ کرے مگر سیاست کچھ ایسی آڑے آتی ہے کہ دونون حصوں پر رہنے والے لوگ لاچارگی کا شکار ہیں۔ مگر اس لاچارگی کے ساتھ بھی پاکستانی کمشیریوں کو ایک خاص درجہ دیتے ہیں — سیاسی وجوہات کی بنا پر، بلکہ یکساں تاریخ کی بنا پر بھی۔
میرے لیے، اس دورے میں سب سے یادگار لمحے وہ تھے جب میری ملاقات پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں رہنے والوں سے لوگوں سے ہوئی۔ میرے کئی ایسے دوست رہ چکے ہیں جن کا تعلق کشمیر کے اس حصے سے ہے اور برطانیہ میں ان کے ساتھ ڈھیر سارا وقت گزرا،
مگر یہاں بات کچھ مختلف تھی۔ مظفر آباد سے تعلق رکھنے والی ایک ذہین نوجوان طالبہ نے کشمیر یونیورسٹی دیکھنے اور سری نگر میں قیام جیسی خواہشوں پر گھنٹوں باتیں کی۔ مظفرآباد سے تعلق رکھنے والا ایک اور طالب علم مجھ سے مل کافی خوش تھا۔