نقطہ نظر

کیا اسلامی اتحاد کی قیادت سے راحیل شریف متنازع بن جائیں گے؟

سیاسی قوتوں اور قوم کو اعتماد میں لیا جانا ضروری نہیں سمجھا گیا کہ آخر اس اتحاد میں پاکستان کا کردار کس نوعیت کا ہوگا۔

سعودی عرب کی سربراہی میں بننے والے اسلامی فوجی اتحاد کا چرچہ تو 15 دسمبر 2015 سے ہو رہا ہے، جب اس چالیس رُکنی فوجی اتحاد کو تشکیل بنانے کا اعلان ہوا تھا۔

لیکن جنرل (ر) راحیل شریف کو سربراہ مقرر کیے جانے کی اطلاعات کے بعد اس اتحاد پر پاکستان میں تلخی کی طرف مائل سیاسی بحث شروع ہوئی۔ راحیل شریف کی ریٹائرمنٹ سے قبل ہی انہیں اس اتحادی فوج کا سربراہ مقرر کیے جانے کی خبریں آنے لگی تھیں، مگر اس وقت کسی بھی جماعت نے اس حوالے سے کوئی خاص رد عمل نہیں دیا تھا۔

جنرل راحیل شریف سعودی شاہی خاندان کے مہمان کی حیثیت سے عمرہ ادا کرنے سعودی عرب پہنچے تو پیپلز پارٹی کے رہنما اور چیئرمین سینیٹ رضا ربانی سمیت کئی مضبوط آوازیں جنرل راحیل شریف کی نئی اسائنمنٹ پر سوالات اٹھانے لگیں۔

وزیرِ دفاع خواجہ آصف نے ٹی وی انٹرویو میں جنرل راحیل کی نئی اسائنمنٹ کی تصدیق کی لیکن اس کے فوری بعد ہونے والی سینیٹ بریفنگ میں کسی قسم کا این او سی جاری کرنے کی تردید کی۔

حصہ لیجیے: کوئز: آپ جنرل راحیل کے بارے میں یہ سب جانتے ہیں؟

اگرچہ عمرہ ادائیگی کے بعد وطن واپسی پر بھی جب جنرل راحیل شریف کا مؤقف سامنے نہیں آیا لیکن ریٹائرڈ فوجی افسران نے وضاحت دینا شروع کی کہ ابھی وہ عہدہ نہیں سنبھال رہے بلکہ انہوں نے عہدہ سنبھالنے کے لیے تین شرائط رکھی ہیں۔

اب تقریباً چار ماہ بعد حکومت کی طرف سے جنرل راحیل شریف کو اسلامی فوجی اتحاد کی سربراہی کے لیے گرین سگنل دے دیا گیا ہے۔ تاہم سیاسی قوتوں اور قوم کو اعتماد میں لیا جانا ضروری نہیں سمجھا گیا کہ آخر اس اتحاد میں پاکستان کا کردار کس نوعیت کا ہوگا۔

جنرل (ر) راحیل کی نئی اسائنمنٹ پر بحث مباحثے سے پہلے درجنوں سوالات ہیں جن کے جواب جاننا ضروری ہیں تاکہ بحث کی سمت متعین ہو سکے۔ سعودی عرب کی سربراہی میں بننے والے اس اتحاد کا مستقبل کیا ہے؟ اس فوجی اتحاد کی طاقت کیا ہوگی؟ کون کون سے اہداف مقرر کیے گئے ہیں؟ کتنا بجٹ ہوگا؟ کیا اتحاد نیٹو طرز کا ہے جس میں ایک نیٹو رکن پر حملہ سب پر حملہ تصور ہوگا؟ دہشتگردی کے خلاف جنگ کے نام پر بننے والے فوجی اتحاد کا مینڈیٹ کیا ہوگا؟ فیصلہ سازی کا فورم کیا ہوگا اور کیسے کام کرے گا؟

ان سوالات کے جواب جب تک نہیں مل جاتے بحث بے مقصد اور بلا نتیجہ ہی رہے گی۔ ان سوالات کے جواب کے لیے انتظار کرنا پڑے گا کہ سعودی حکومت اور اتحادی کب چپ کا روزہ توڑتے ہیں، لیکن اس سے پہلے اسی قسم کے اتحاد کی کب کب اور کتنی سنجیدہ کوششیں ہوئیں، یہ جاننے سے اس نئے اتحاد کے مستقبل پر کچھ غور کیا جا سکتا ہے۔

خلیجی ممالک کا فوجی اتحاد بنانے کی یہ کوئی پہلی یا نئی کوشش نہیں، اس سے پہلے جنگ عظیم دوم کے بعد سے اب تک کم از کم پانچ ایسی کوششیں کی جا چکی ہیں۔ ان پانچ کوششوں میں سے دو کاوشیں سعودی عرب کی سربراہی میں ہوئیں اور کوئی بھی کوشش کامیابی کی طرف نہ بڑھ پائی۔

ان پانچ کوششوں میں عرب لیگ کے مشترکہ دفاع کا معاہدہ، مڈل ایسٹ کمانڈ، مڈل ایسٹ ڈیفنس آرگنائزیشن، معاہدہ بغداد (جس کا باضابطہ نام مڈل ایسٹ ٹریٹی آرگنائزیشن تھا) اور گلف کوآپریشن کونسل (جی سی سی) شامل ہیں، رکن ممالک کی پالیسیوں میں تبدیلی، کسی رکن ملک میں بیرونی مداخلت اور جارحیت پر باقی ممالک کا مدد کو نہ آنا اور فوجی اتحاد کے لیے مجوزہ ڈھانچے کو عملی جامہ نہ پہنانا، ان اتحادوں کی ناکامی کی وجہ بنا۔

پڑھیں: 'دہشتگردی کے خلاف جنگ میں 34 اسلامی ریاستیں متحد‘

فوجی اتحاد کی ان دو کوششوں کی ناکامی کے باوجود سعودی عرب نئے فوجی اتحاد کی طرف گامزن ہے کیونکہ اس کا خیال ہے کہ خطے میں اس کا کرداراپنی مرضی کا ہونے کے بجائے صرف دفاعی رہا ہے۔ اس نئی سوچ کے ساتھ سعودی عرب نے اپنی سفارتی حکمت عملی تبدیلی لایا ہے اور خاموش ڈپلومیسی ترک کر رہا ہے۔

ایران کے ایٹمی پروگرام پر امریکا اور یورپی طاقتوں کے معاہدے کے بعد سعودی عرب خود کو اسٹرٹیجک حوالے سے دباؤ کا شکار محسوس کر رہا ہے اور اپنے پرانے فوجی اتحادی امریکا پر بیوفائی کا الزام بھی دھر رہا ہے۔

2015 میں امریکا نے خلیجی ممالک کے ساتھ نیٹو طرز پر کسی فوجی اتحاد کے امکانات کو مسترد کرتے ہوئے میزائل ڈیفنس اور سائبر وار فیئر جیسی فوجی معاونت کی پیشکش کی۔

اس کے علاوہ خلیجی ممالک کے درمیان کشیدگی بڑھی ہے۔ اگرچہ سعودی عرب، قطر کے ساتھ تعلقات میں بہتری لایا ہے تاہم عرب ریاستوں کے درمیان ہم آہنگی اب بھی کمزور ہے۔ قطر وہ ملک ہے جس نے 2013 میں گلف یونین کے قیام کی نہ صرف مخالفت کی بلکہ اس کے دو سال بعد یمن میں سعودی فوجی مہم میں شمولیت سے انکار کیا اورعلامتی طور پر بھی حمایت نہیں کی تھی۔

سعودی عرب بدلتی ہوئی زمینی سیاست میں خود کو ہر طرف سے خطرات میں گھرا ہوا محسوس کرتا ہے۔ سعودی عرب مشرق میں ایران، جنوب میں القاعدہ اور حوثی باغی اور شمال میں عراق میں موجود داعش سے خطرہ محسوس کرتا ہے۔

سعودی عرب اور ایران کے تعلقات ہمیشہ سے مشکل کا شکار رہے ہیں لیکن اب ان تعلقات میں مزید کشیدگی آئی ہے۔ 2015 میں سانحہ منیٰ کے بعد دونوں ملکوں میں تلخی حد سے بڑھی اور دونوں طرف سے سخت بیانات جاری کیے گئے۔

ایران نے سعودی عرب پر غفلت کا الزام لگاتے ہوئے عالمی عدالت میں جانے کی دھمکی دی، اس سے پہلے 1987 میں اس طرح کی صورت حال پیش آئی تھی جب سعودی فورسز اور ایرانی عازمین حج کے درمیان جھڑپ میں چار سو افراد مارے گئے تھے۔ دونوں ملکوں میں مظاہرین نے سفارتخانوں پر قبضہ کر لیا تھا اور آیت اللہ خمینی نے سعودی بادشاہت کا تختہ الٹنے کا اعلان کیا تھا۔

2016 کے اوائل میں سعودی شیعہ عالم شیخ نمر النمر کو بغاوت کے الزام میں پھانسی دینے کے بعد سفارتی تعلقات میں رخنہ آیا اور تہران میں مظاہرین نے سعودی سفارتخانے پر قبضہ کیا جس پر دونوں ملکوں نے سفارتی تعلقات توڑ دیے۔

پڑھیے: جنرل راحیل کی لیگیسی

سعودی عرب کو دہشتگردی کے شدید خطرات کا بھی سامنا ہے۔ داعش نے متعدد بار سعودی عرب کے خلاف جنگ کا اعلان کیا، اسلامی فوجی اتحاد کے اعلان پر بھی داعش نے سعودی عرب پر حملوں کی دھمکی دی، داعش نے سعودی عرب میں چند شہریوں کو دہشتگرد تنظیم کے لیے کام کے الزام میں پھانسی پر ایک ویڈیو پیغام میں سعودی عرب کے عوام کو حکومت کے خلاف اٹھ کھڑے ہونے کا بھی کہا۔

عراق میں سرگرم داعش گروپ میں سعودی عرب کے تین ہزار شہری بھی شامل ہیں جو سعودی عرب کے لیے ایک اندرونی خطرے کی گھنٹی ہیں۔ ایران اور داعش دونوں سعودی عرب کے لیے یکساں خطرہ تصور ہوتے ہیں، کیونکہ دونوں ہی سعودی عرب میں بادشاہت کا تختہ الٹنے کے خواہاں ہیں تاہم داعش زیادہ بڑا خطرہ ہے جو انقلاب کے نام پر قتل و غارت گری کا موجب بن سکتی ہے۔

سعودی عرب کے لیے ایک بڑا خطرہ یمن میں ہے، جہاں القاعدہ کا سب سے بڑا علاقائی گروپ بہت مضبوط ہے۔ اس گروپ نے سعودی شہزادے محمد بن نائف کے قتل کی کوشش بھی کی، بظاہر القاعدہ کا یہ گروپ یمنی کہا جاتا ہے لیکن اس گروپ کے کمانڈرز میں سعودی شہریوں کی نمایاں تعداد شامل ہے۔ القاعدہ یمن کے عزائم میں نہ صرف یمن میں عدم استحکام پیدا کرنا شامل ہے بلکہ آل سعود کے اقتدار کا بھی خاتمہ چاہتا ہے۔ سعودی عرب حوثی باغیوں کو نئی حزب اللہ تصور کرتا ہے۔

سعودی عرب کی فوج کو کچھ عرصہ پہلے تک ایک پریڈ فورس تصور کیا جاتا رہا ہے جبکہ قومی سلامتی کے لیے سعودی عرب کا انحصار امریکی افواج پر رہا ہے لیکن 2003 سے سعودی عرب نے امریکا پر انحصار کی پالیسی ختم کرتے ہوئے اپنی افواج کی تعداد ایک لاکھ سے بڑھا کر دو لاکھ کی ہے جبکہ عرب اقوام میں سعودی عرب اب دوسری بڑی فضائی قوت ہے، پہلا نمبر مصر کا ہے۔

سعودی عرب کے پاس اس وقت تین سو پانچ لڑاکا طیارے موجود ہیں۔ سعودی عرب میزائل ڈیفنس سسٹم بھی بنا رہا ہے اور پچھلے ایک عشرے میں اس کی بحریہ بھی پندرہ ہزار اہلکاروں سے بڑھ کر پچیس ہزار اہلکاروں تک پہنچ گئی ہے۔ سعودی عرب کی تیاریوں سے لگتا ہے کہ وہ فضائی اور بحری جنگ کا خطرہ محسوس کر رہا ہے یا پھر ایسی کسی صورت حال سے نمٹنے کے لیے تیار رہنا چاہتا ہے۔

پڑھیے: راحیل شریف: ایک بہادر سپہ سالار کی داستان

ان سب تیاریوں کے باوجود سعودی فورسز کی سب سے بڑی کمزوری ناتجربہ کاری ہے، سعودی فورسز کی بیرون ملک آخری بار تعیناتی 1991 میں عراق جنگ کے دوران ہوئی تھی۔ اب یمن میں فوجی مہم سعودی عرب کی فورسز کی تازہ جنگی مشق ہے جس میں زمینی اور فضائی دستوں میں کوآرڈینیشن اور انٹیلی جنس آپریشن کا تجربہ حاصل کیا جا رہا ہے اس کے ساتھ غیرملکی افواج کی تعیناتی بھی سعودی فورسز کی مہارت میں اضافے کا باعث بن سکتی ہیں۔

یمن کا محاذ سعودی فورسز کو دیگر محاذوں سے توجہ ہٹانے پر مجبور کر رہا ہے، سعودی فضائیہ نے اتحادیوں کے ساتھ مل کر عراق اور شام میں داعش پر بمباری کی لیکن یہ مشن روکنا پڑ گیا۔

متحدہ عرب امارات جو عرب دنیا کی چوتھی بڑی فضائی طاقت ہے، کی مدد کے باوجود سعودی عرب یمن کے محاذ پر خود کو تنہا محسوس کرتا ہے۔اسی تنہائی کو مٹانے کے لیے سعودی عرب فوجی اتحاد بنانے اور اسے کامیاب بنانے کی کوشش کر رہا ہے۔

اس اتحاد کے 39 ارکان اسلامی سربراہی کانفرنس کے رکن ہیں، یہ وہی تنظیم ہے جسے 1969 میں سعودی عرب کے ایما پر بنایا گیا، لیکن او آئی سی کے 18 ارکان نئے اتحاد کی فہرست سے غائب ہیں۔

ایران اور عراق اس اتحاد کا حصہ نہیں جس کی وجہ ایران سعودی دشمنی ہی ہے۔ اگرچہ سعودی وزیردفاع نے اعلان کیا تھا کہ اس فوجی اتحاد کا رکن ہر مسلم ملک بن سکتا ہے جو کسی دہشتگرد گروپ کی امداد نہیں کرتا (حزب اللہ کو سعودی عرب نے دہشتگرد قرار دے رکھا ہے) تاہم اسے سنی مسلم اتحاد اور ایران مخالف اتحاد سے تعبیر کیا جانے لگا ہے۔

لیکن غور کیا جائے تو کئی سنی مسلم ممالک بھی اس اتحاد کا حصہ بننے کو تیار نہیں، جیسے الجزائر، جس نے دہشتگردی کا شکار ملک ہونے کے باوجود اس اتحاد کا حصہ بننے سے انکار کیا ہے۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو یہ فرقہ وارانہ اتحاد کے بجائے اسٹرٹیجک اتحاد ہے۔

نئے فوجی اتحاد کے نام میں 'اسلامی' کا لفظ موجود ہونے کے باوجود ایران، عراق کو اتحاد سے باہر رکھنے کا اقدام مسلم دنیا اور یورپ میں اس اتحاد کی ساکھ پر سوالیہ نشان اور وسیع پیمانے پر قبولیت میں رکاوٹ ہے۔

عرب یا مسلم دنیا کے فوجی اتحاد کی تاریخ یہی بتاتی ہے کہ دہشتگردی کے خلاف بننے والے نئے اسلامی فوجی اتحاد کا وجود محض کاغذی اور رسمی ہے۔ اس اتحاد کا مقصد صرف اور صرف مسلم دنیا اور مشرق وسطیٰ میں سعودی عرب کے قائدانہ کردار کو منوانا ہے۔

مشرق وسطیٰ پر نظر رکھنے والے ماہرین کا خیال ہے کہ اسلامی فوجی اتحاد ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کا نیا ایڈونچر ہے اور محمد بن سلمان یمن جنگ میں پرانے اتحاد کی ناکامی سے توجہ ہٹانا چاہتے ہیں۔ چند مبصرین کے خیال میں یہ اتحاد مشرق وسطیٰ کو فائدہ پہنچانے کے بجائے مزید فرقہ وارانہ تقسیم اور کشیدگی کا سبب بھی بن سکتا ہے۔

حکومت کے چند زعما اور ریٹائرڈ جنرلز قوم کو ٹی وی مباحثوں میں یقین دلانے کی کوشش کرتے نظر آتے ہیں کہ جنرل راحیل کی نئی اسائنمنٹ سے ایران اور سعودی عرب نزدیک آئیں گے اور پاک ایران تعلقات میں بگاڑ نہیں آئے گا۔

ان کے اس یقین کی وجہ اور استدلال سامنے نہیں آیا۔ یہ ایک طرح سے جنرل راحیل کی 'کرشماتی شخصیت' پر اندھا اعتماد ہے، لیکن جنرل راحیل کے مداحوں کو اس نئے کردار میں ان کی شخصیت متنازع بنتی دکھائی نہیں دیتی جو ان کی کوتاہ بینی کے سوا کچھ نہیں۔

آصف شاہد

دو دہائیوں سے زائد عرصہ سے صحافت کے ساتھ وابستہ ہیں۔ بین الاقوامی تعلقات بالخصوص مشرق وسطیٰ ان کی دلچسپی کے موضوعات ہیں۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔