نقطہ نظر

'دنیا کی سب سے بڑی سونے کی کان پر ڈاکے' کی کہانی

بلوچستان کے علاقے ریکوڈک میں واقع سونے کی کان کے معاہدے سے کس کو فائدہ پہنچا اور کس کو نقصان؟
لکھاری ڈان اخبار کے اسٹاف ممبر ہیں.

اس شخص نے سرگوشی کے سے انداز میں مجھ سے کہا، "کیا آپ نے ریکوڈک کے بارے میں سنا ہے؟"

میرا جواب نفی میں تھا، "نہیں تو، ریکوڈک کیا چیز ہے؟"۔

"ابھی تک بہت کم لوگوں نے اس کے بارے میں سنا ہے، مگر جلد ہی پورے ملک کو اس بارے میں معلوم ہوجائے گا۔"

یہ 2007 کی بات ہے اور اس وقت میرا اس مشتبہ شخص سے صرف تعارف ہی ہوا تھا۔ میں اس کا نام اس لیے نہیں لوں گا کیوں کہ ہماری گفتگو کوئی انٹرویو نہیں تھی۔ بس اتنا کہنا کافی ہوگا کہ اگلے چند سالوں میں ہر کوئی اس کا نام جان گیا تھا۔

ہماری ایک دو دفعہ ملاقات ہوئی، اور کچھ دفعہ ہم نے فون پر بات کی۔ میں ان دنوں ڈان نیوز کے لیے کام کر رہا تھا، جب یہ انگریزی میں ہوا کرتا تھا۔

اس دوران مشرف حکومت کئی محاذوں پر الجھی ہوئی تھی جن میں وکلاء تحریک، لال مسجد، سانحہءِ 12 مئی، سوات میں ملا فضل اللہ کی جنگجو تنظیم، امریکا میں معاشی بحران، اور مشرف اور بینظیر بھٹو کے درمیان 'ڈیل' کی لگاتار باتیں شامل تھیں۔

وہ بہت زبردست دن تھے اور ایک اقتصادی رپورٹر کے طور پر میں تمام پہلوؤں کا جائزہ لے رہا تھا تاکہ معیشت کو درپیش مشکلات کو ایک بڑے پس منظر میں دیکھ سکوں۔

یہی وہ دن تھے جب میرے ایک دوست نے میری ملاقات اس شخص سے کروائی۔ لال مسجد کے اندر کیا ہو رہا تھا، وہ شخص اس کے بارے میں حیرت انگیز حد تک اور مشکوک طور پر واقف تھا۔ ہم اسی بارے میں بات کرنے کے لیے ملے تھے، اور تب مجھ سے یہ سوال پوچھا گیا۔

اس نے مجھے یقین دلایا کہ ان دونوں معاملات کے درمیان کوئی ربط نہیں تھا۔ "مگر یہ ایک تاریخی نوعیت کا اسکینڈل ہے۔" پھر اس نے کوڑیوں ("صرف 25 فیصد!") کے عوض دے دی گئی ایک کان کی لیز کے بارے میں، "دنیا کی سب سے بڑی سونے کی کان" کو لوٹنے کے بارے میں اور سر چکرا دینے جتنی بڑی کرپشن کے بارے میں بے ربط گفتگو شروع کر دی۔


جانیے: ریکوڈک کی کانوں میں کتنے کھرب ڈالر کی معدنیات موجود ہیں


میں نے اس سے پوچھا کہ "آپ کے پاس ان تمام باتوں کے ثبوت میں کیا ہے؟"۔ جواب میں اس نے کہا کہ وہ میری اسٹوری کے لیے تمام دستاویزات بھیجنے کے لیے تیار تھا۔

ٹھیک ہے۔ آپ مجھے دستاویزات بھیج دیں پھر میں دیکھ لیتا ہوں۔

چند دن بعد اس نے ایک ای میل میں چند اٹیچمنٹس بھیج دیں۔ جب میں نے کھولا تو وہ بلاگ کی طرز پر لکھی گئی چند بے نام تحریریں تھیں۔ جس اہم حقیقت پر وہ تمام دستاویزات کی بنیاد تھی، وہ حکومتِ پاکستان اور ٹیتھیان کاپر کمپنی (ٹی سی سی) کے درمیان ہونے والا ایک معاہدہ تھا جس کے تحت کمپنی پیداوار کا 75 فیصد رکھ سکتی تھی جبکہ حکومت کو صرف 25 فیصد ملنے تھے۔

تو میں نے فوراً انٹرنیٹ پر جائزہ لینا شروع کیا کہ کان کنی کی لیز میں بین الاقوامی طور پر کیا تناسب رکھا جاتا ہے۔ بظاہر یہ ایک معیاری فارمولہ تھا، کیوں کہ بہرحال کمپنی ہی تمام سرمایہ کاری کرتی ہے، جو کہ اس معاملے میں 3.3 ارب ڈالر تھی۔

چند دن بعد اس شخص نے دوبارہ فون کیا۔ "کیا آپ کو وہ دستاویزات دیکھنے کا موقع ملا؟" میں نے کہا، ہاں، میں نے دیکھ لیے، مگر ان میں تو کچھ بھی نہیں ہے۔ یہ تو بے نام تحریریں ہیں جن میں کوئی بھی سرکاری دستاویزات نہیں۔ صرف ایک ڈیل کو حقیقت بنا کر پیش گیا ہے، وہ بھی ایسی ڈیل جو کان کنی کی صنعت میں معیاری ہے۔

"ہمارے پاس اور بھی بہت کچھ ہے، سرکاری دستاویزات بھی۔"

"ٹھیک ہے، تو پھر دکھائیں۔" جواب میں اس نے کچھ ایسا کہا کہ میں دو بار سوچنے پر مجبور ہوگیا۔

"نہیں۔ پہلے آپ ان دستاویزات سے کچھ کریں، پھر ہم دیکھیں گے کہ آپ کیا کچھ کر سکتے ہیں۔ اس کے بعد ہم آپ کو مزید دستاویزات دیں گے۔"

میں نے اس سے کہا کہ میں ان دستاویزات سے کچھ نہیں کر سکتا، اور ہماری بات چیت ختم ہوگئی۔

چند سالوں بعد یہ اسٹوری کھل کر اس وقت سامنے آ گئی جب سپریم کورٹ نے وہ کیس سننا شروع کیا جو بلوچستان ہائی کورٹ میں 2007 میں شکست کھا چکا تھا۔ 2011 میں سماعتوں کے درمیان ٹی سی سی نے کان کنی کے لیے اپنی فزیبلٹی رپورٹ جمع کروائی اور 2013 میں سپریم کورٹ نے جامع انداز میں یہ معاہدہ منسوخ کرتے ہوئے کہا کہ بلوچستان حکومت اور ٹی سی سی کے درمیان یہ مشترکہ منصوبہ مکمل طور پر غیر قانونی تھا۔


پڑھیے: ریکوڈک کی داستان


اس کے کچھ عرصے بعد ٹی سی سی یہ کہتے ہوئے معاہدے سے دستبردار ہوگئی کہ "ہم بین الاقوامی ثالث کے سامنے مالی نقصانات اور کان کنی میں ہونے والے منافع کے نقصانات کا دعویٰ کریں گے۔"

گذشتہ ہفتے ٹی سی سی نے اپنے دعوے میں پہلی کامیابی حاصل کی ہے۔ سرمایہ کاری کے تنازعات کے حل کے عالمی ادارے آئی سی ایس آئی ڈی، کو کہ ورلڈ بینک کا ذیلی ادارہ ہے، نے اپنا پہلا حکمنامہ جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ منصوبے کی ناکامی کا بار واقعی حکومتِ پاکستان پر ہے۔

تب سے لے کر بیرک گولڈ، وہ کمنی جو ٹی سی سی قائم کرنے والے مشترکہ منصوبے کی شریک کار تھی، اور جس نے ریکوڈک کی فزیبلٹی اسٹڈی کی تھی، ریکوڈک کے معاملے پر قانونی اخراجات کی مد میں 2 کروڑ 10 لاکھ ڈالر خرچ کر چکی ہے۔ اور جتنا پیسہ وہ ان قانونی اخراجات پر لگا رہے ہیں، اسے دیکھتے ہوئے یہی لگتا ہے کہ وہ معاہدے کی ناکامی سے ہونے والے 12 کروڑ ڈالر کے نقصان (جس کا اعتراف ان کی اپنی رپورٹ میں موجود ہے) سے کہیں زیادہ پیسہ حکومتِ پاکستان سے نکلوانا چاہتے ہیں۔

ریکوڈک وہ واحد بڑی ڈیل نہیں ہے جس کا یہ انجام ہوا۔ اس کے مسائل 2006 میں تب شروع ہوئے جب اس کے خلاف مقدمہ بلوچستان ہائی کورٹ میں دائر کیا گیا تھا۔ یہ وہ وقت تھا جب اسٹیل ملز کیس نے ملک کے نجکاری پروگرام کو ختم کر دیا تھا۔ تب سے لے کر اب تک اسٹیل ملز پر ساڑھے تین ارب ڈالر کا قرض اور 177 ارب روپے کا خسارہ جمع ہو چکا ہے۔

ریکوڈک پر سپریم کورٹ میں سماعت شروع ہونے کے بعد اگلے سال اسی کورٹ نے جی ڈی ایف سوئیز کے ساتھ ہونے والا ایل این جی کا معاہدہ منسوخ کر دیا۔ اگلے پانچ سال تک ہماری صنعتیں اور ہمارے بجلی گھر قیمتی ایندھن کے لیے ترستے رہے کیوں کہ گیس کی قلت یومیہ ایک ارب مکعب میٹر سے بڑھ کر دو ارب مکعب میٹر تک پہنچ چکی تھی۔

ہم ریکوڈک کیس کی تفصیلات کے بارے میں بات کر سکتے ہیں۔ اس بارے میں کہنے کے لیے بہت کچھ ہے، مگر ایک دہائی قبل اس مشتبہ کردار سے میری مختصر ملاقات کے بعد مجھے یہ یقین ضرور ہے کہ اس پورے معاملے میں کوئی بھی فریق مکمل طور پر معصوم نہیں، اور ہر معاہدے کے گرد اٹھائے جانے والے تنازعات کے اس سلسلے نے ملک کو فائدہ نہیں پہنچایا ہے۔

انگلش میں پڑھیں۔

یہ مضمون ڈان اخبار میں 30 مارچ 2017 کو شائع ہوا.

خرم حسین

صحافی ماہر معیشت اور کاروبار ہیں

انہیں ٹوئٹر پر فالو کریں۔ : khurramhusain@

ان کا ای میل ایڈریس ہے: khurram.husain@gmail.com

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔