پاکستان

نیب کا غیرقانونی،جعلی اور خلاف ضابطہ تقرریوں کا اعتراف

تعلیمی معیار پر پورا نہ اترنے والے 9 اعلیٰ نیب افسران کو وقت سے پہلے ریٹائرکیا جائے، سپریم کورٹ کا حکم

اسلام آباد: قومی احتساب بیورو (نیب) نے تسلیم کیا ہے کہ 2003 سے 2013 تک ادارے میں بڑے پیمانے پر غیرقانونی، جعلی اور خلاف ضابطہ تقرریاں ہوئیں۔

سپریم کورٹ میں جسٹس امیر ہانی مسلم کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے نیب میں غیر قانونی، جعلی اور خلاف ضابطہ تقرریاں کے ازخود نوٹس کیس کی سماعت کی۔

سماعت کے دوران نیب نے اپنی رپورٹ پیش کی، جس میں تسلیم کیا گیا کہ ادارے میں غیر قانونی اورخلاف ضابطہ تقرریاں ہوئیں، جب کہ کئی ملازمین کو ڈیپوٹیشن پر بھی تعینات کیا گیا۔

نیب کی رپورٹ میں تسلیم کیا گیا کہ نیب میں ابتدائی طور پر 2003 میں 629 تقرریاں ہوئیں، جن میں سے 133 افراد کی خلاف ضابطہ تقرریاں و ترقی کی گئی۔

رپورٹ میں اعتراف کیا گیا کہ 2013 تک نیب میں غیر قانونی و خلاف ضابطہ تقرریوں کی تعداد 1 ہزار 719 تک پہنچ گئی تھی، جن میں سے 210 تقرریاں قواعد کے برعکس ہوئیں ۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ڈیپوٹیشن پر 395 افراد کی تقرر ی ہوئی، جن میں سے 9 افراد کو قواعد و ضوابط کےبرعکس افسر تعینات کیا گیا۔

رپورٹ کے مطابق نیب میں دوسرے اداروں کے ضم کیے گئے 32 افراد میں سے 20 افراد کو قواعد و ضوابط کےخلاف ضم کیا گیا، جب کہ 39 تقرریاں غلط اشتہار کی بنیاد پر کی گئیں ، اشتہار میں مطلوبہ اہلیت وقابلیت کاتذکرہ ہی نہیں کیا گیا۔

نیب نے اسٹیبلمشنٹ ڈویژن کی جانب سے جمع کرائی گئی رپورٹ سے بھی اتفاق کیا، جس میں غیر قانونی تقرریاں کے بارے میں کہا گیا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: نیب میں غیر قانونی تقرریاں، سپریم کورٹ کا ازخود نوٹس

رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ نیب میں 156افسران کی خلاف ضابطہ تقرری ہوئی، جن میں سے 51 افسران ریٹائر ہوچکے ہیں، جب کہ 9 افسران نیب کو چھوڑ کر جاچکے ہیں۔

جسٹس امیر ہانی مسلم نے خلاف ضابطہ اور جھوٹے اشتہاروں پر ملازمین کی تقرریوں پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے ریمارکس میں کہا کہ میرٹ اور پالیسیوں پر کوئی سمجھوتہ نہیں ہوگا، ہم نے چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ کی تقرریوں کو بھی مسترد کیا۔

نیب کی جانب سے اس بات کا بھی اعتراف کیا گیا کہ ادارے میں 9 اعلیٰ افسران ایسے بھی ہیں، جن کی تعلیمی قابلیت ان کے عہدے کے مطلوبہ معیار کے مطابق نہیں۔

سپریم کورٹ نےچیئرمین نیب کو ہدایات کیں کہ تعلیمی قابلیت پر پورا نہ اترنے والے 9 اعلیٰ افسران کو قبل از وقت با عزت طریقے سے ریٹائر کردیا جائے کیوں کہ انہوں نے نیب میں ایک عرصہ گزارا ہے، اگرعدالت نے حکم دے دیا تو وہ افسران ریٹائرمنٹ کے فوائد سے بھی محروم ہوجائیں گے۔

عدالت نے عالیہ رشید نامی خاتون کو نیب میں بطورڈائریکٹر آگاہی مہم تعینات کرنے پر شدید برہمی کا اظہار کیا۔

جسٹس امیر ہانی مسلم نے استفسارکیا کہ شعبہ اسپورٹس سے تعلق رکھنے والی عالیہ رشید کو نیب میں ڈائریکٹر آگاہی کیوں لگایا گیا؟جس پر وکیل صفائی کا کہنا تھا عالیہ رشید کو 2003 میں اس وقت کے وزیراعظم کی ہدایت پر بھرتی کیا گیا۔

جسٹس امیر ہانی مسلم نے سوال کیا کہ اس وقت وزیر اعظم کون تھا، جس پر وکیل صفائی نے جواب دیا کہ 2003 میں ظفراللہ جمالی وزیراعظم تھے۔

جسٹس امیر ہانی مسلم نے ریمارکس دئیے کہ کیا وزیراعظم قانون سے بالاتر ہے؟ بھرتی وزیراعظم کرے یا صدر ،قانون کے مطابق ہونی چاہیے۔

مزید پڑھیں: کرپشن کی رقم رضاکارانہ جمع کرانے والوں کی تفصیلات طلب

جسٹس امیر ہانی کا مزید کہنا تھا کہ ایک کیس میں بھارت سے کبڈی میچ جیتنے والے پولیس اہلکار کو ترقی دی گئی، شکر ہے کبڈی کے مزید میچ نہیں ہوئے ،ورنہ پولیس اہلکار آئی جی بن جاتا۔

خیال رہے کہ عدالت نے غیر قانونی، جعلی اور خلاف ضابطہ بھرتیوں کا ازخود نوٹس 2016 میں لیتے ہوئے سیکریٹری اسٹیبلشمنٹ اور نیب سے رپورٹ طلب کی تھی۔

عدالتی احکامات کے بعدسیکریٹری اسٹیبلشمنٹ نے سپریم کورٹ میں غیرقانونی اور خلاف ضابطہ تقرریوں سے متعلق رپورٹ جمع کرائی تھی، جس کے جواب میں نیب نے 27 مارچ کو اپنی رپورٹ جمع کراتے ہوئے غیر قانونی و خلاف ضابطہ تقرریوں کو تسلیم کیا۔

عدالت نے کیس کی سماعت 28 مارچ تک ملتوی کردی۔

خیال کیا جا رہا ہے کہ نیب میں غیر قانونی اور خلاف ضابطہ بھرتیوں سے متعلق سپریم کورٹ کا فیصلہ 29 مارچ تک آجائے گا، کیوں کہ 31 مارچ کو جسٹس امیر ہانی مسلم ریٹارئرڈ ہو جائیں گے۔