خواتین کے مسائل اور پاکستانی ڈراموں کی ڈرامے بازیاں
ہمارے ہاں لسانی، علاقائی اور معاشرتی تقسیم سے کہیں زیادہ معاشی و معاشرتی سطح پر مساوی مواقع اور حقوق کے حوالے سے جدوجہد عورت کے حصے میں آتی ہے۔ اپنی پیدائش سے لے کر اپنی اولاد کی پیدائش تک عورت کو "ذات کی تکمیل" کے نام پر ایک مسلسل سفر کرنا ہوتا ہے۔
عزت دینے کی بات آئے تو "مائیں، بہنیں, بیٹیاں" ٹائپ نعروں میں جوڑ کر عورت کی پہچان اور مقام کو صرف رشتوں کے پیمانوں میں قید کر دیا گیا ہے۔ کسی سماجی رابطے کی ویب سائٹ ہو یا کوئی عوامی جگہ 'بھائی' کا دُم چھلا لگائے بِنا مرد سے بات کرنا معیوب ہے جناب۔ سرگوشیاں ہوں گی، آنکھوں سے اشارے ہوں گے اور کردار پر کیچڑ اچھال کر اپنی کم مائیگی کے احساس کو تسکین پہنچائی جائے گی۔
ایسا نہیں ہے کہ گھر پر رہنے والی اور کنبے کا بوجھ اٹھا کر گھر سے باہر کام کرنے والی یا اپنا کریئر بناتی خواتین میں سے کوئی ایک مسائل کا نسبتاً کم شکار ہوتی ہے۔ لیکن گزشتہ چند روز سے ہمارے ہاں انٹرٹینمنٹ کے نام پر چلتے کچھ ٹی وی ڈراموں کا جائزہ لینے کی کوشش نے اس حوالے سے مایوس کیا ہے۔
پڑھیے: پاکستانی ڈراموں کی کامیابی کے فارمولے
لکھاری کسی معاشرے کا نباض ہوتا ہے جو مختلف بکھری کہانیوں کو جوڑ کر ایک جیتی جاگتی تصویر پیش کرتا ہے۔ سمجھ سے باہر ہے کہ موضوعات کے چناؤ میں حقیقت سے دور ڈرامہ اسکرپٹس کو پروڈکشن ہاؤسز کیسے اسکرین پر چلاتے چلے جارہے ہیں۔
دو بہنوں میں سے ایک کو بطور ڈائن اور دوسری کا کردار روتی دھوتی قربانی کی دیوی، اکلوتی ہو یا کثیرالتعداد بیٹیاں کہانی صرف شادی بیاہ کے گرد گھومتی رہتی ہے، بیویوں کے کردار میں ہمارے لکھاری ابھی تک 1937 کے ماڈل میں پھنسے ہوئے ہیں اور سب سے بڑی فکری بددیانتی ملازمت پیشہ خواتین کے کرداروں سے برتی جا رہی ہے۔
آج بھی تعلیم سے لے کر کریئر بنانے تک گھر سے باہر جاتی عورت کے کردار کو اس کے لباس اور بول چال سے ناپا جاتا ہے، اگرچہ اس کا چار دیواری سے باہر ہونا ہی بدکرداری کی واضح علامت بنا کر پیش کیا جاتا ہے۔ جبکہ ہر دوسرا ڈرامہ ان خواتین کی مشکلات میں اضافہ کرتے صرف یہ دکھا رہا ہے کہ آفس میں کام کرتی ایک نوجوان خاتون اپنے باس سے فلرٹ کر رہی ہے جس کا انجام کار شادی پر ہی ہے۔
کسی جوان بیوہ کا کردار ہے تو مجال ہے کہیں یہ دکھایا جائے کہ سرکاری ملازم کی بیوہ پینشن کے حصول سے لے کر دیگر دفتری معاملات میں کیسے نفسیاتی طور پر کچلی جاتی ہے یا اگر کوئی ذاتی کام کاج کرنے والا شخص دنیا سے چلا گیا تو اس کی بیوہ بچوں کے مسائل کس نوعیت کے ہوسکتے ہیں اور ان سے لڑتی باہمت عورت کیا کچھ کر سکتی ہے۔ لکھاری دِکھاتا ہے تو صرف کسی اوباش کردار کو یا لالچی جیٹھ کو۔
تخلیق کے نام پر مسلسل ایک ہی پلاٹ کا ری مکس ورژن بیچا جا رہا ہے۔ گھریلو تشدد تو چھوڑیے یہاں ریپ کو بھی گلیمرائز کر دیا گیا ہے۔ زیادتی کرنے والے کو ڈرامے کے آخر میں متاثرہ عورت کی جانب سے معافی یا قبولیت کی سند دِلواتے، اسکرین کی زینت بنانے والے، کیا کبھی اس کرب کا ادراک کر پائیں گے جو حقیقی زندگی میں ایسی متاثرہ بچی یا خاتون سہتی ہے؟
تیزاب گردی ،غیرت کے نام پر قتل، وٹہ سٹہ، ونی اور ایسے دیگر حساس موضوعات کو ہینڈل کرنے کا ڈھنگ نہیں سیکھ پا رہے۔ خواجہ سراء پر کوئی پراجیکٹ شروع کر کے اس کے پلاٹ کو بھی پھیلا کر صرف بالا دست طبقے کے معاملات دکھانے پر اکتفا کر لیا جاتا ہے۔ گھریلو ملازماؤں کو صاحب لوگوں پر ڈورے ڈالتے دکھا دیں، ڈرامہ بِک جائے گا۔ اس طبقے کی کام کرتی عورت کے مسائل جائیں بھاڑ میں۔
مزید پڑھیے: پاکستانی ڈراموں میں ’ریپ‘ کی رومانوی منظر کشی کیوں؟
عورت کے استحصال کا آغاز دہلیز کے باہر نکلنے سے قبل گھر سے ہی ہوا کرتا ہے۔ اور غور کیا جائے تو پہلا پتھر گھر کی بڑی بوڑھیوں کی ہاتھ میں ہوتا ہے۔ خوراک، صحت اور تعلیمی درسگاہ کے انتخاب تک میں صنفی تقسیم اور بددیانتی برتی جاتی ہے۔ بچی بڑی ہو رہی ہے تو دودھ، انڈے، خشک میوہ جات اور گوشت وغیرہ سے بچانا چاہیے لیکن پوتے کو یہ سب زیادہ مقدار میں ٹھونسنے کو دیا جائے۔
رشتہ دیکھنا ہے تو لڑکی دبلی پتلی، گوری چٹی، سر و قد، تیکھے نقوش، سگھڑاپے کی مورت، کم عمر ہو لیکن ڈگریاں ڈٹ کر حاصل کر رکھی ہوں۔ بہو سے زیادہ بیٹے کی صحت و خوراک پر توجہ مرکوز کی جائے، پھر چاہے وہ بہو گھر سنبھالنے اور بچے پیدا کرنے کے ساتھ جاب کر کے شوہر کا ہاتھ ہی کیوں نہ بٹاتی ہو۔ چکی کے دو پاٹ اور اس میں پِستی عورت جبکہ اکثر پیسنے والی دوسری عورت۔
میری دادی آٹھ بہوئیں بیاہ کر لائیں اور اس حوالے سے میں نے انہیں شاندار رویے کی امین پایا کہ ہر عورت حسین ہوتی ہے۔ نین نقش اور رنگ روپ کی بنیاد پر ایک عورت کے ہاتھوں دوسری خواتین کا استحصال سب سے مکروہ روایت ہے۔ یہی بات میں نے اپنی والدہ سے سیکھی کہ رویے، سوچ اور الفاظ بدصورت ہوا کرتے ہیں مگر انسان (بلاتخصیص جنس) کائنات کی سب سے حسین تخلیق ہوتی ہے۔
زندگی سے خوبصورت کچھ نہیں اور بیٹی ہو یا بیٹا اسے اپنی صلاحیتوں پر بھروسہ کرنے کا گُر سکھانا چاہیے۔ بچوں کو اعتماد دیا جائے تو صنفِ مخالف کے وجود کو کچل کر اپنی ذات منوانے کی بدصورت روایات ختم ہوسکتی ہے۔ تعلیم، شعور اور صحت مند سوچ ہر بچے کاحق ہے۔
پڑھیے: پاکستانی ٹی وی اسکرینز پر گھٹن زدہ ڈراموں کا راج
پاکستان میں قانون سازی کے ساتھ اجتماعی شعور میں بدلاؤ کی بھی ضرورت ہے۔ زندگی کے مختلف میدانوں میں اپنی جگہ بناتی ہوئی عورت ہو یا دوسری خواتین کے تحفظ و حقوق کے بارے میں آواز اٹھاتی، قانون سازی میں حصہ ڈالتی خواتین ہوں، سب جانتے ہیں کہ ہر دو جگہ بدصورت رویوں کا اظہار کرنے والے موجود ہوتے ہیں۔
سوچ بدلے گی تو عورت کو بطور انسان تسلیم کرنے کی راہ میں آسانیاں بھی آتی جائیں گے کہ فی الحال تو خود سے زیادہ کامیاب اور زیادہ کماتی عورت ہر رشتے اور حوالے سے اکثریت کو عدم تحفظ کا شکار کردیتی ہے۔
باقی یوں ہے کہ کچھ دن قبل خواتین کے عالمی دن کے موقع پر ان لوگوں کو بھی چیختے دیکھا جو سارا سال اپنے گھر کے علاوہ دنیا کی ہر عورت کو حرافہ سمجھتے ہیں لیکن سال میں ایک دن انہیں اچانک یاد آجاتا ہے کہ "عورتوں کا تو مقام بہت بلند ہے۔"
افشاں مصعب اسلام آباد میں مقیم ہیں، زندگی پر لکھنا پسند کرتی ہیں، سیاست، سماجیات اور نفسیات ان کے پسندیدہ موضوعات ہیں۔ متعدد بلاگ پیجز پر ان کی تحاریر شائع ہو چکی ہیں۔
انہیں ٹوئٹر پر فالو کریں: AfshanMasab@
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔