کھیل

خصوصی بچے سونے کا تمغہ جیتنے کیلئے پرعزم

اسپیشل اولمپکس ورلڈ ونٹر گیمز میں شرکت کرنے والے پاکستانیوں کو بتانا چاہتے ہیں کہ خصوصی بچے بھی ملک کا فخر بن سکتے ہیں۔

اسلام آباد: ایک شام جب وفاقی دارالحکومت میں آفتاب ڈوبنے کی تیاریاں کر رہا ہے، 16 سالہ صباحت طارق علامہ اقبال یونیورسٹی کے میدانوں میں اپنے دوستوں کے ہمراہ بھاگ رہی ہیں، جہاں پرندوں کی چہچہاہٹ اور پرجوش بچوں کی نعرے بازی جاری ہے۔

نوجوان لڑکے لڑکیاں واضح طور پر پرجوش نظر آ رہے ہیں، چند گھنٹوں میں وہ آسٹریا میں ہونے والے اسپیشل اولمپکس ورلڈ ونٹر گیمز2017 میں پاکستان کی نمائندگی کے لیے جہاز میں سوار ہو جائیں گے۔

2017 ونٹر گیمز میں 110 ملکوں کے تین ہزار سے زائد اسپیشل اولمپکس ایتھلیٹ شرکت کر رہے ہیں۔

چند نوجوان ایتھلیٹس کے لیے 2017 اسپیشل اولمپکس کا سفر کسی معجزے سے کم نہیں۔

سنوشوٹنگ کے مقابلوں میں حصہ لینے والی صباحت کے لیے بھی یہ سفر کسی معجزے سے کم نہیں، ایک ٹرک ڈرائیور کی بیٹی صباحت ضلع مری کے چھوٹے سے غریب گاؤں کنڈا میں پیدا ہوئیں، وہ غیرمعمولی طور پر چھوٹے سر کی بیماری (microcephaly) کا شکار ہیں جس کی وجہ سے دماغ مکمل طور پر ارتقا کے عمل سے نہیں گزرتا۔

طبی سہولیات کے اخراجات برداشت کرنے سے قاصر صباحت کے والدین کو ان کی بیماری کا علم اُس وقت ہوا، جب وہ سات سال کی ہوئیں، ان کے والدین اکثر اوقات ان کی ضروریات سمجھنے سے قاصر رہتے ہیں۔

2007 میں والدین انہیں مری میں واقع اسپیشل ایجوکیشن سینٹر لے گئے، اپنے نئے اسکول میں صباحت اکثر جارحانہ رویہ اختیار کرتیں جبکہ زیادہ لوگوں سے گفتگو بھی نہ کرتیں۔ لیکن پھر رفتہ رفتہ انہوں نے کھیلوں میں دلچسپی لینا شروع کردی اور دیگر بچوں کے ساتھ گھلنے ملنے لگیں۔

گزشتہ سال وہ ان بچوں میں شامل تھیں جنہیں اسپیشل اولمپکس پاکستان کے ٹریننگ کیمپ میں شرکت کے لیے منتخب کیا گیا، کئی سالوں کی جدوجہد کے بعد صباحت کے والدین ان کی زندگی کے حوالے سے مایوسی کا شکار ہو چکے تھے لہٰذا اسپیشل اولمپکس پاکستان کی ٹیم کو کراچی میں ہونے والے ٹریننگ کیمپ کے لیے صباحت کے والدین سے اجازت لینے کے لیے انھیں رضامند کرنا پڑا۔

لیکن کیمپ میں پہنچ کر صباحت بہت پریشان ہو گئیں۔

کوچ آمنہ بیگ نے بتایا کہ ہمیں صباحت کے معاملے میں بہت محتاط رہنا پڑتا تھا۔ اگر ہم انہیں کوئی چیز دو بار کرنے کو کہتے تو وہ سب سے الگ تھلگ جا کر خاموشی سے تنہائی میں بیٹھ جاتی تھیں۔

لیکن 18 ماہ بعد صباحت کی کوچ فخر سے اس بات کا اظہار کرتی ہیں کہ وہ ایک اسٹار ایتھلیٹ ہیں، انہوں نے انٹرویوز دیئے اور کیمپ میں کئی دوست بنالیے۔

آمنہ نے بتایا کہ اب صباحت ہماری ہر بات سنتی ہے اور اس بات کا یقین کرنا بہت مشکل ہے کہ انہوں نے کتنا طویل سفر طے کیا ہے۔

اسکی (ski) کوچ آمنہ بیگ اُن چار افراد میں شامل ہیں جو بچوں کو لے کر آسٹریا گئی ہیں۔ آسٹریا میں ہونے والے گیمز تک پہنچنے کا ان کا اپنا سفر بھی بہت دلچسپ ہے۔ وہ سوست کی سرحد کے قریب واقع وادی ہنزہ کے شمال میں برف و پتھروں کی وادی چپرسان سے تعلق رکھتی ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ 'میں والی بال چیمپیئن تھی اور دیگر کھیلوں میں بھی حصہ لیتی تھی، میں نے ہیلتھ اور فزیکل ایجوکیشن میں ماسٹرز کیا اور بحیثیت ٹیچر مزید تعلیم کیلئے مہناز فاطمہ اسکول کا حصہ بن گئی، مجھے خصوصی تعلیم کے اس تصور نے اپنی جانب کھینچا تھا'۔

گلگت میں اسپیشل اولمپکس پاکستان ٹیم کے ہمراہ اسپورٹس ایونٹ کا حصہ بننے کے بعد وہ اسی آرگنائزیشن کا حصہ بن گئیں، اپنے ارد گرد برفانی پہاڑوں و چوٹیوں کے باوجود آمنہ نے کبھی بھی اسکی نہیں سیکھی لہٰذا بچوں کو سکھانے سے قبل انہیں خود اسکی سیکھنے کے عمل سے گزرنا تھا۔

انہوں نے بتایا کہ 'میں نے بہت سخت محنت کی، ابتدا میں الپائن اسکینگ کی کیونکہ مجھے معلوم نہ تھا کہ ایونٹ میں مقابلے کراس کنٹری اسکینگ کی طرز پر ہوں گے'۔

یہ دونوں آپس میں مختلف ہیں کیونکہ الپائن اسکینک میں اسکائرز پہاڑی علاقے سے کشش ثقل کے ذریعے نیچے جاتے ہیں جبکہ کراس کنٹری ایک ہموار سطح پر کی جاتی ہے جس کے لیے ایک مناسب ٹریک اور مزید قوت کی ضرورت ہوتی ہے، لہٰذا بعد میں کراس کنٹری اسکینگ کی پریکٹس شروع کی۔

آمنہ کے لیے کیمپ کا تجربہ بہت بہترین رہا، انہوں نے بتایا کہ 'وہ کبھی یونیورسٹی نہیں گئیں لہٰذا اتنے لوگوں سے مل کر مجھے کچھ سیکھنے کا موقع ملا۔ خصوصی بچوں کو خصوصی حفاظت اور احتیاط کی ضرورت ہوتی ہے اور ہر بچہ دوسرے سے مختلف ہوتا ہے۔ میں نے ہر بچے، اس کی ضرورت اور شخصیت کو سمجھنے کا گُر سیکھا'۔

کیمپ میں موجود تین بہن بھائیوں تہمینہ، حمیز منیر عالم اور پرویز احمد کا تعلق بھی گلگت بلتستان سے ہے۔ نیلی آنکھوں اور خوبصورت مسکراہٹ کی حامل 15 سالہ تہمینہ بھی کراس کنٹری اسکینگ میں حصہ لیں گی۔ تصاویر کھنچواتے ہوئے انہوں نے سوال کیا کہ ’کیا میں بھی خبروں میں آؤں گی‘۔

تاہم کوچ نے بتایا کہ پہلے کیمپ میں تہمینہ مختلف تھیں، انہیں مستقل جھٹکے پڑ رہے تھے جس کے سبب وہ بہت خوفزدہ ہو گئی تھیں لیکن چند مہینوں کی تھراپی نے کایہ ہی پلٹ دی۔

ڈاؤن سنڈروم کے مرض کا شکار پرویز احمد کا تعلق بھی گلگت بلتستان سے ہے۔

ان کے والد نے انہیں چھوڑ دیا تھا جس کے بعد والدہ نے ان کی اکیلے پرورش کی۔ پرویز کو اپنی والدہ کی مدد کیلئے مزدوری کرنا پڑتی تھی۔

آمنہ نے بتایا کہ پرویز اب بھی تعمیرات کے کام میں مزدوری کرتا ہے، پاکستان میں عام طور پر خصوصی بچوں کے لیے دستیاب سہولیات انتہائی ناقص ہیں جبکہ گلگت میں تو صورتحال اور بھی ابتر ہے۔ان بچوں کی تھراپی اور تعلیم کے لیے کھیل ایک اہم عنصر ہے اور ہمارے پاس تو میدان تک نہیں جہاں یہ بچے کھیل سکیں۔ ہر مرتبہ پریکٹس کے لیے مجھے خط لکھ کر مختلف اداروں سے گراؤنڈ استعمال کرنے کے لیے اجازت لینا پڑتی ہے۔

تاہم کراس کنٹری ایتھلیٹ کو دستیاب ناقص سہولیات کے باوجود آمنہ کو امید ہے کہ بچے کھیلوں میں عمدہ کارکردگی کا مظاہرہ کریں گے۔

انہوں نے بتایا کہ ٹیم کا جذبہ دیدنی ہے، ہر ایتھلیٹ ہمیں کہہ رہا ہے کہ وہ ملک کے لیے میڈل جیتنا چاہتا ہے۔ انہوں نے بہت سخت محنت کی ہے اور یہ ملک کا سر فخر سے بلند کرنا چاہتے ہیں۔ یہ بچے پاکستانیوں کو یہ سکھانا چاہتے ہیں کہ خصوصی بچے بھی ملک کے لیے فخر کا سبب بن سکتے ہیں۔

یہ خبر 22 مارچ 2017 کے ڈان اخبار میں شائع ہوئی