ایک اسٹار کی کرکٹ میں آمد کا اعلان
پاکستان کا ورلڈ کپ کا سفر ایک مرتبہ پھر سیمی فائنل میں اختتام پذیر ہوتا نظر آ رہا تھا۔ اس سے قبل گزشتہ تین ورلڈ کپ مقابلوں میں بھی سیمی فائنل میں آ کر پاکستان کی پیش قدمی دم توڑ گئی تھی اور ایک مرتبہ پھر ایسا محسوس ہوتا تھا کہ 1992 کے ورلڈ کپ میں بھی پاکستانی ٹیم فائنل سے قبل ہی گھر لوٹ جائے گی۔
گروپ اسٹیج میں بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کرنے والے نیوزی لینڈ کی ٹیم کو صرف پاکستان کے ہاتھوں واحد شکست کا سامنا کرنا پڑا تھا اور پھر دونوں ٹیمیں سیمی فائنل میں ایک مرتبہ پھر مدمقابل آئیں۔
آکلینڈ میں تماشائیوں سے کھچا کھچ بھرے میدان میں نیوزی لینڈ نے ٹاس جیت کر پہلے بیٹنگ کا فیصلہ کیا جسے کپتان مارٹن کرو نے اپنی عمدہ بیٹنگ سے درست ثابت کیا۔
یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ جب مارٹن کرو ٹاس کیلئے میدان میں اترے تھے تو مقامی آفیشلز نے انہیں موسم کی پیشگوئی کے حوالے سے ایک کاغذ کا ٹکڑا پکڑایا جس پر تحریر تھا کہ بارش کی میچ میں مداخلت کا اندیشہ ہے، دوپہر ڈھائی بجے شدید طوفانی بارش کا امکان ہے‘۔
اسی بات کو ذہن میں رکھ کر بارش کے قانون کے پیش نظر مارٹن کرو نے پہلے بیٹنگ کرنے کا فیصلہ کیا۔
مارٹن کرو نے عمدہ فارم کا سلسسلہ برقرار رکھا اور اننگز کے دوران انجری کے باوجود 91 رنز کی بہترین اننگز کھیلی، کین ردرفورڈ نے 50 رنز بنانے کے ساتھ ساتھ اپنے کپتان کے ساتھ 155 رنز کی اہم شراکت قائم کی۔
راؤنڈ میچ میں 167 کا ہدف دینے والے کیویز نے اہم میچ میں 263 رنز کا ہدف دیا جو 1992 میں ایک بڑا ہدف تصور کیا جاتا تھا اور ہدف کے تعاقب میں پاکستان کے منفی ریکارڈ کو دیکھتے ہوئے اس کے حصول کی توقع انتہائی کم نظر آتی تھی۔
جاوید میانداد نے اپنی سوانح حیات میں لکھا ہے کہ ’حالانکہ ایڈن پارک کی باؤنڈری چھوٹی تھی لیکن اس کے باوجود کسی بھی کنڈیشنز میں بڑا ہدف تھا۔ حقیقتاً ہم آج تک ورلڈ کپ میں دوسری بیٹنگ کرتے ہوئے اتنے رنز کبھی نہیں بنا سکے تھے۔ اس کی وجہ سے ہم سب بہت نروس تھے‘۔
ہیمسٹرنگ انجری کے سبب مارٹن کرو فیلڈنگ کیلئے میدان میں نہ اترے کیونکہ انہیں پاکستان کی سست بیٹنگ اور بارش کی ممکنہ آمد کے پیش نظر میلبرن میں فائنل کھیلنے کا یقین تھا۔
پاکستان کی اننگز کے 25 اوورز گزرے تو گرین شرٹس دو وکٹ کے نقصان پر 87 رنز بنا چکے تھے اور مشکل میں تھے لیکن اس کے باوجود مارٹن کرو کے چہرے پر مایوسی اور تعجب کے ملے جلے تاثرات نمایاں جو آسمان کی طرف دیکھ رہے تھے جہاں بارش تو دور، بادل بھی دور دور تک نظر نہ آتے تھے۔
پاکستانی ٹیم 35 اوورز میں 140 پر کپتان عمران خان سمیت چار کھلاڑیوں سے محروم ہو چکی تھی اور آخری 15 اوورز میں گرین شرٹس کو جیت کیلئے 123 رنز درکار تھے جو ناممکن نظر آتا تھا۔
اس موقع پر ملتان کے سلطان انضمام الحق کی میدان میں آمد ہوئے جو بیماری کے سبب نچلے نمبروں پر بھیجے گئے۔ انضمام ایونٹ میں کچھ خاص کارکردگی تو نہ دکھا سکے تھے لیکن عمران خان کو ان کی صلاحیتوں پر پورا بھروسہ تھا۔
وسیم اکرم کے مطابق ایک رات قبل انضمام کو شدید تیز بخار تھا اور الٹیاں ہو رہی تھیں۔ وہ عمران خان کے پاس آئے اور کہا کہ مجھے بخار ہے اور مجھے نہیں لگتا کہ میں میچ کھیل سکوں گا لیکن عمران نے جواب دیا کہ کسی چیز کے بارے میں مت سوچو، بس یہ سوچو کہ تم نے اس میچ میں کیسے کھیلنا ہے۔
جاوید میانداد کے بقول ’انضمام میرے پاس مشورہ لینے آئے، وہ بہت نروس اور خوفزدہ نظر آتے تھے اور مجھے ایسے دیکھ رہے تھے جیسے انہوں نے کوئی بھوت دیکھ لیا ہو‘۔
22سالہ انضمام نے صرف 31 گیندوں پر نصف سنچری مکمل کر کے کرکٹ کی دنیا میں ایک نئے اسٹار کی آمد کا اعلان کیا اور 60 رنز کی اننگز کھیلنے کے ساتھ ساتھ میانداد کے ساتھ 10 اوورز 87 رنز کی شراکت قائم کر کے پاکستان کو ایک ناقابل یقین فتح کے قریب پہنچا دیا۔
انضمام کی جارحانہ بیٹنگ پر مارٹن کرو بے تاب نظر آتے تھے لیکن نہ بارش آئی اور نہ ہی پاکستانی بلے باز کے بلے نے کیوی باؤلرز کی درگت بنانا چھوڑی۔
جب انضمام رن آؤٹ ہوئے تو پاکستان کو جیت کیلئے 36 رنز درکار تھے اور پھر میچ کے آخری اوورز سے قبل ہی معین خان نے ایک چھکا اور پھر چوکا رسید کر کے پاکستان کو پہلی مرتبہ ورلڈ کپ کے فائنل تک رسائی دلائی۔
دوسرے اینڈ پر موجود جاوید میانداد نے عمدہ بیٹنگ کرتے ہوئے ناقابل شکست 57 رنز بنائے اور اس دن کے بعد انضمام الحق کا نام دنیائے افق پر ایک بڑے بلے باز کے طور پر ابھر کر سامنے آیا۔
انضمام نے بعد میں پاکستانی ٹیم کی قیادت کا تاج بھی سر پر سجایا اور جب وہ عالمی کرکٹ سے رخصت ہوئے تو ون ڈے میں 11ہزار 739 رنز بنا کر پاکستان کے سب سے کامیاب بلے باز بنے جبکہ ٹیسٹ کرکٹ میں بھی انہوں نے آٹھ ہزار 830 رنز بنانے کا کارنامہ سر انجام دیا۔