1987: بنگلور کی ناقابل فراموش فتح
تین دہائیوں قبل مارچ 1987 میں پاکستان نے ہندوستان کے منہ سے یقینی فتح چھینتے ہوئے انہی کی سرزمین پر پہلی ٹیسٹ سیریز جیتنے کا کارنامہ انجام دیا تھا۔ ہوم گراؤنڈ پر اپنے امپائرز اور ان کی اپنی ٹیم سے وفاداری جیسے منفی ہتھکنڈوں کے باوجود پاکستان نے بنگلور میں تمام تر تند و تیز لہروں کو مات دیتے ہوئے یہ معرکہ سر کیا اور فاتح قرار پائے۔
اس وقت کی عالمی چیمپیئن ہندوستانی ٹیم ہوم گراؤنڈ پر تقریباً ناقابل شکست تصور کی جاتی تھی۔ دوسری جانب ویسٹ انڈیز کی شہرہ آفاق ٹیم سر ویوین رچرڈز کی زیر قیادت ایک مشکل سیریز کھیلنے کے بعد حال ہی میں پاکستان کا دورہ کر کے واپس لوٹی تھی۔
نیوٹرل امپائر کا تصور اسی سیریز میں پیش کیا گیا جب سیریز کے تین میں سے دو ٹیسٹ میچوں میں وی کے راما سوامی اور پی ڈی رپورٹر نے امپائر کے فرائض انجام دیے۔
تاہم جب پاکستان پانچ ٹیسٹ میچوں کی سیریز کھیلنے پہنچا تو ہندوستان نے نیوٹرل امپار کی سوچ کا پاس رکھنے سے انکار کردیا۔ سیریز کے ابتدائی چار ٹیسٹ میچ بڑے بڑے مجموعوں کے بعد ڈرا پر منتج ہوئے۔
احمد آباد میں ہونے والا چوتھا ٹیسٹ میچ نہ کھیلنے والے توصیف احمد اور جاوید میانداد کی بنگلور میں ہونے والے آخری ٹیسٹ میچ کے لیے ٹیم میں واپسی ہوئی۔
13 مارچ 1987 کو اسپن وکٹ پر عمران خان نے ٹاس جیت کر پہلے بیٹنگ کا فیصلہ کیا جو اس وقت غلط ثابت ہوا جب پاکستانی ٹیم کی بساط 116 رنز پر لپٹ گئی جس کے ذمہ دار منندر سنگھ تھے جنھوں نے سات وکٹیں لیں۔
سلیم ملک 33 رنز کے ساتھ سب سے کامیاب بلے باز رہے لیکن آخری وکٹ کے لیے اقبال قاسم اور توصیف کے درمیان 18 رنز کی شراکت کی بدولت پاکستان 100 کا ہندسہ پار کرنے میں کامیاب رہا۔
جواب میں ہندوستان کی پوزیشن چار وکٹوں کے نقصان پر 102 رنز پر مضبوط نظر آتی تھی لیکن فیلڈنگ میں بہترین کارکردگی کی بدولت پاکستانی ٹیم نے میزبان کو 145 پر ٹھکانے لگا کر ان کی برتری کو محض 29 رنز تک محدود کردیا۔ اقبال قاسم اور توصیف احمد نے پانچ پانچ وکٹیں حاصل کیں۔
دوسرے دن کھانے کے وقفے کے بعد پاکستان نے رمیز راجہ اور جاوید میانداد سے دوسری اننگز شروع کی۔ یہ کیریئر میں دوسرا موقع تھا کہ جب میانداد اننگز کی شروعات کر رہے تھے جہاں اس سے قبل 1982 کے لارڈز ٹیسٹ میں بھی انھوں نے یہ ذمہ داری سنبھالی تھی اور اس وقت بھی پاکستانی ٹیم فاتح رہی تھی۔
میانداد کے 17 رنز پر آؤٹ ہونے سے قبل اس جوڑی نے قیمتی 45 رنز بنائے۔ مخالف نعروں اور اپیلوں کے باوجود ’عمران خان کے شیروں‘ نے ڈٹ کر مقابلہ کیا۔ سلیم ملک نے رمیز کے ساتھ تیسری وکٹ کے لیے 32 رنز جوڑے اور نائٹ واچ مین اقبال قاسم کے ساتھ بھی اتنے ہی رنز جوڑ کر رنز بنانے کا سلسلہ جاری رکھا۔ جب دوسرے دن کا کھیل ختم ہوا تو پاکستان نے پانچ وکٹوں کے نقصان پر 155 رنز کر 100 رنز سے زائد کی برتری حاصل کر لی تھی۔
نیوٹرل امپائر کی بات اس وقت درست ثابت ہوئی جب ایک بے جان سی اپیل پر امپائر رام سوامی نے اپنی انگلی کھڑی کردی۔ اس وقت وکٹ پر موجود اقبال قاسم امپائر کو بلے سے اشارہ کرتے رہے کہ گیند ان کے بیٹ سے لگی ہے جس پر وہ فیصلہ بدلنے پر مجبور ہو گئے۔
دوسری اننگز بالآخر 249 رنز پر اختتام پذیر ہوئی۔ وکٹ کیپر سلیم یوسف کے ناقابل شکست 41 رنز اور نویں وکٹ پر توصیف کے ساتھ بنائے گئے 51 رنز نے پاکستان کو مضبوط پوزیشن میں لا کھڑا کیا۔ منندر نے دوسری اننگز میں مزید تین وکٹیں لے کر میچ میں دس وکٹیں لینے کا کارنامہ انجام دیا۔
221 رنز کے ہدف کے تعاقب میں عظیم ہندوستانی بلے باز سنیل گاوسکر نے کرش سری کانت کے ساتھ اننگز شروع کی۔ اسکور 15 تک ہی پہنچا تھا کہ ہندوستان وسیم اکرم کی لگاتار گیندوں پر سری کانت اور موہندر امرناتھ سے محروم ہو گیا۔ اس موقع پر ہندوستانی ٹیم کی بیٹنگ لائن ڈھیر ہوتی نظر آتی تھی لیکن سنیل گاوسکر نے بیٹنگ لائن کو سہارا دیا جس کی بدولت تیسرے دن کے اختتام پر ہندوستان نے چار وکٹوں کے نقصان پر 99 رنز بنا لیے تھے۔
16 مارچ آرام کا دن تھا جہاں دونوں پاکستانی اسپنرز کے پاس سابق ہندوستانی کپتان بشن سنگھ بیدی سے ملنے کا نادر موقع تھا۔ اس گفتگو کے دوران بیدی نے نشاندہی کی کہ اگر منندر سنگھ گیند زیادہ اسپن کرنے کی کوشش نہ کریں تو زیادہ کامیاب ہو سکتے ہیں۔
یہ ’آرام کا دن‘ اسپنرز کیلئے کارگر رہا جس کی بدولت انھوں نے اگلے دن بھرپور آرام کیا۔ چوتھے دن اقبال نے گیند زیادہ اسپن کرنے کی کوشش نہ کی اور اس کا انہیں بہترین نتیجہ ملا اور وہ اظہرالدین اور شاستری کو کیچ کرا کر انھوں نے ہندوستان کو 155 رنز پر چھ وکٹوں سے محروم کردیا۔
چھ رنز کے اضافے سے کپتان کپل دیو بھی ساتھ چھوڑ گئے۔ دوسرے اینڈ پر موجود سنیل گاوسکر کو امپائر نے رضوان الزماں کے شاندار کیچ پر آؤٹ نہ قرار دے کر ایک نئی زندگی فراہم کی تھی لیکن ہدف سے 41 رنز کی دوری پر رضوان نے ہی اقبال کی گیند پر سلپ میں ان کا دوبارہ کیچ لیا۔ وہ اپنی ممکنہ 35ویں سنچری سے چار رنز کی کمی پر پویلین لوٹے۔
یہ عظیم بلے باز کا آخری ٹیسٹ میچ بھی ثابت ہوا جو ٹیسٹ کرکٹ کی تاریخ میں دس ہزار رنز بنانے والے پہلے کھلاڑی بنے تھے۔
توصیف نے شیولال کو آؤٹ کر کے میچ کی قسمت کا فیصلہ کر دیا تھا لیکن 192 رنز نو کھلاڑی آؤٹ پر بنی نے توصیف کو لمبا چھکا لگا کر ہدف کو کم کرنے کے ساتھ ساتھ ہندوستانی شائقین میں بھی فتح کی نئی امید جگا دی۔
اس موقع پر بہت زیادہ تناؤ تھا لیکن توصیف 11 ماہ قبل شارجہ میں بھی اسی طرح کی صورتحال سے دوچار تھے جب انھیں میچ کے آخری اوور کی پانچویں گیند پر سنگل لے کر میانداد کو اسٹرائیک دینے کا مشکل ہدف سونپا گیا تھا لیکن انہوں نے یہ کر دکھایا تھا۔ اس کے بعد وہ میانداد کے کرشماتے چھکے پر بھارت کی ناؤ ڈوبتے اور چیتن شرما کا کیریئر تباہ ہوتے ہوئے دیکھنے کے عینی شاہد تھے۔ کیا وہ ایسا پھر کر سکتے ہیں؟۔
ہندوستان ہدف کی جانب آہستہ آہستہ بڑھ رہا تھا۔ توصیف آئے اور 204 کے اسکور پر بنی کو تیز گیند کر کے وکٹوں کے عقب میں کیچ کرا دیا۔ مہمان ٹیم نے 16 رنز سے فتح حاصل کر کے ناممکن کو ممکن کر دکھایا۔ پاکستان کھلاڑی خوشی سے لبریز تھے جبکہ توصیف نے سجدہ کر کے پاکستان کرکٹ کی تاریخ کی ناممکن ترین فتح پر شکر ادا کیا۔
پاکستان نے بنگلور ٹیسٹ کے ساتھ ساتھ سیریز بھی جیت لی۔ پاکستان کی اسپن جوڑی نے میچ میں نو نو وکٹیں حاصل کیں۔ اس سے قبل پاکستان کی ہندوستان میں فتح کے مرکزی کردار عبدالحفیظ کاردار اس یادگار دن کمنٹری باکس میں موجود تھے اور کہا جاتا ہے کہ اس موقع پر اپنے جذبات کو قابو میں نہ رکھ سکے اور بے اختیار نعرہ لگایا کہ ’ہم نے ہندؤوں کو فتح کر لیا‘۔
میچ میں جرات مندانہ اور فتح گر کارکردگی دکھانے کے باوجود توصیف احمد یا اقبال قاسم کے بجائے سنیل گاوسکر کو میچ کا بہترین کھلاڑی قرار دیا گیا جن کی اننگز ہندوستان کو فتح سے نہ بچا سکی تھی۔