قزبانو کا گاؤں: جہاں پانی اور علم کی شدید پیاس ہے
واقعی زندگی ایک گورکھ دھندا ہے۔ اس کی پُراسراریت سمجھنے کے لیے میں جہاں بھی گیا مجھے مایوسی کے سوا کچھ حاصل نہ ہوا۔ مجھے اُمید اور انتظار کی کیفیتوں میں اتنا یقین دیکھ کر خود پر یقین نہیں آیا کہ، انتظار اس قدر طویل بھی ہو سکتا ہے۔ بات گھنٹوں کی، صبح و شام کی، ہفتوں کی، مہینوں کی ہوتی تو بات قابل فہم بھی ہوتی۔
چلیے مان لیتے ہیں کہ برسوں کی طویل مدت بھی کبھی کبھار سمجھ میں آ سکتی ہے۔ مگر جس انتظار کا کوئی کنارہ نہ ہو، کوئی سرحد یا کوئی موسم نہ ہو وہاں زندگی کس طرح اپنا وجود برقرار رکھتی ہے؟
مگر ہم جانتے ہیں کہ تپتی دوپہروں، طوفانوں، خشک سالیوں اور جاڑوں کی یخ بستہ راتوں میں زندگی اس بغیر کسی سرحد والے انتظار میں اپنی بقا کی جنگ لڑتی ہے۔ سمندر اور قدیم ندیوں کے کناروں پر کہیں بھی چلے جائیں تو ہزاروں راز مل جائیں گے جنہیں سمجھنے کے لیے شاید ایک پورا زمانہ درکار ہو۔
جنوبی سندھ کا ایک چھوٹا سا شہر ہے ’جاتی‘۔ اس شہر سے جنوب کی طرف ایک دو کلومیٹر سفر کریں تو اچانک سڑک مغرب کی طرف مُڑ جاتی ہے۔ یہ سڑک جہاں جاتی ہے وہاں ایک الگ ہی دنیا آباد ہے۔
لیکن وہاں کسی دوسرے دن چلیں گے، فی الحال اس موڑ پر پکے راستے کو الوداع کہہ کر ہم کچے راستے پر گامزن ہوتے ہیں جو لوگوں اور گاڑیوں کی آمد و رفت سے ہموار ہو چکا ہے۔